کتنی ہی دیر سے نینی مٹی سے کھیل رہی تھی۔۔ ہاتھ چہرہ اور کپڑے سب مٹی اور دھول میں اٹ گئے تھے۔۔ نم آلود مٹی کو ہاتھ میں لے کر ایک اپنائیت کا جو احساس جسم و جاں میں سرائیت کرتا وہ شاید لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔۔ نینی نے بےخیالی میں ایک چھوٹا سا گملہ اٹھایا، گیلی ریت پر رینگتے ہوئے کیچوے کو دیکھ کر نینی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔ نینی نےجھٹ سے ایک بڑے سے تنکے پر کیچوے کو ٹانگ لیا۔۔ کسی قدر بے بسی سے کیچوا تنکے پر ٹنگا رہا، سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا۔۔
نینی کی معصوم آنکھوں میں شرارت عود آئی۔۔ کچھ دیر ٹنگے رہنے کے بعد کیچوا مٹی پر گر گیا اور گرتے ہی مٹی میں غائب ہوگیا۔۔ نینی نے بے صبری سے دونوں ہاتھوں سے مٹی کھودنا شروع کر دی۔۔ مگر کیچوا غائب ہو چکا تھا۔۔ نینی کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔۔ نینی کے ننھے سے دل میں گھمبیر اداسی نے اپنا ڈیرا ڈال لیا۔۔ تنہائی کا سنپولیہ بل کھاتا ہوا نینی کے وجود سے لپٹ گیا۔۔ نینی نے بے صبری سے دروازے کی طرف دیکھا۔۔ امی ابھی تک نہیں آئیں تھیں"امی۔۔!" نینی کے دل نےصدا لگائی۔۔ یہ صدا جیسے کسی خالی کنویں سے ٹکرا کر پلٹ آئی۔۔
یونہی مٹی اور دھوپ میں کھیلتے کھیلتے وقت گزرتا اور بالاآخر امی آ ہی جاتی تھیں۔۔ "امی۔۔ " نینی بھاگتی ہوئی ماں سے لپٹ گئی۔۔ ماں نے نینی کا حلیہ دیکھا تو جھنجھلا کر رہ گئی۔۔ "کیا حال بنا رکھا ہے نینی۔۔!" نینی احساسِ جرم کےساتھ سر جھکائے کھڑی رہ گئی۔۔ ماں نے سختی سے نینی کا ہاتھ پکڑا اور لان میں لگے نل سے نینی کو کپڑوں سمیت ہی نہلا دیا، سرد سرد پانی نے نینی کے حواس ہی معطل کرکے رکھ دیئے۔۔ "کتنا اچھا ہوتا اگر ماں مجھے اپنی نرم گرم آغوش میں لے لیتی۔۔ " ٹھنڈا پانی نینی کے آنسوؤں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔۔
نینی سوچتی۔۔ بڑوں کی دنیا بھی عجیب ہوتی ہے۔۔ ہر وقت ہی انہیں کسی نہ کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہوتی ہے۔۔ امی اور بابا ہر وقت آفس کے کاموں میں مصروف رہتےُ ہیں۔۔ بڑی ماں ہر وقت کسی سے فون پر بات کرتی رہتیں ہیں یا کسی نہ کسی مہمان کی خاطر داری کرتیں رہتیں۔ نینی کو بارہا خیال آیا کہ شاید نینی نے کوئی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے جو وہ کسی کونظر ہی نہ آتی تھی۔۔ اتنے بڑے گھر میں کسی کو یاد ہی نہ تھا کہ نینی کا بھی ایک وجود ہے۔۔ سخت سخت دیواروں اور ٹھنڈے سفید فرش سے اچھی تو گیلی گیلی مٹی ہے۔۔ گیلی مٹی کو جب بھی ہاتھ لگاؤ تو لگتا ہے جیسے وہ ساری باتیں بغیر کہے ہی سمجھ جاتی ہے۔۔ نینی کے سارے خوف اور وسوسے انگلیوں کے پوروں سے گیلی مٹی میں جزب ہوجاتے اور نینی ایک دم ہی ہلکی پھلکی ہو جاتی۔۔ ساری تنہائی چھومنتر ہو جاتی۔۔ کیاری میں لگے سارے پیڑ پودے نینی کے یار بیلی تھے۔۔
ہر صبح جب نینی کی آنکھ کھلتی تو نینی ہر بار اپنی آنکھیں دوبارہ بھینچ لیتی۔۔ شاید وہ ابھی اور سونا چاہتی تھی۔۔ ایک لمبی پرسکون نیند، جس کے بعد کوئی بھی اداسی نہ رہے۔ نینی نے بارہا سوچا کہ شاید وہ انسان ہی نہیں بلکہ شاید کوئی بلی ہےجو غلطی سے انسان بن گئی ہے۔۔ کبھی کبھی نینی کو محسوس ہوتا کہ کسی دن اس کے چہرے پر بھی بلی کی طرح مونچھیں نکل آئیں گی۔۔ ایک دن نینی نے امی کا مارکر لے کر آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر بلی کی طرح مونچھیں بنا لیں۔۔ امی نے دیکھا توہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئیں۔۔ "تم تو سچ مچ بلی ہی لگ رہی ہو!" امی بہت کم ہنستی تھیں حالانکہ امی ہنستی ہوئی بہت اچھی لگتی تھیں۔۔
ایک دن صبح جب نینی کی آنکھ کھلی تو امی اور بابا زور زور سے کسی بات پر جھگڑ رہے تھے۔۔ نینی نے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کان بند کر لئے۔۔ شاید میں کوئی برا سپنا دیکھ رہی ہوں۔۔ کچھ ہی دیر میں میری آنکھ کھلنے والی ہے۔۔ بہت دیر گزرنے کے بعد بھی جب شور کم نہ ہوا تو نینی نے رضائی کا کونہ سر کا کر جھانکا۔۔ بابا کا چہرہ کسی بھالو کی طرح وحشت زدہ لگ رہا تھا اور امی کسی طوطے کی طرح لال پیلی ہو رہی تھیں۔۔ نینی کو کچھ سمجھ میں نہ آیا، بس اتنا سمجھ آیا کہ بابا کےپاس نینی کو اسکول بھیجنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔۔
اف! مگر نینی تو اسکول جانا چاہتی تھی۔۔ نینی کسی صورت بھی بڑی امی کے گھر پر مزید نہیں رہنا چاہتی تھی۔۔ اب اگر بابا کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ اسکول کیسے جائے گی؟ اور پھر نینی کو اس مسئلے کا حل مل گیا۔۔ نینی جلدی سے بستر سے اٹھی اور بیڈ کے نیچے سے اپنی گلک نکالی جو اوپر تک سکوں سے بھریتھی۔۔ نینی نے جلدی سے اپنی گلک بابا کو دے دی۔۔ "بابا اس میں بہت سے پیسے ہیں۔۔ " بابا نے ایک لمحے کو نینی کی بڑی بڑی حیران آنکھوں میں دیکھا۔۔ اور پھر اچانک ہی نینی کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔۔ بابا کے پاس سے بہت ہی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔۔ ایسی خوشبو جو گیلی گیلی مٹی سے آتی ہے۔۔
اسکول چھوڑنے کے بجائے جب امی نے نینی کو بڑی امی کے گھر چھوڑا تو نینی کو پیٹ میں عجیب سا درد محسوس ہوا۔۔ نینی نے دھیرے سے پوچھا۔۔ "امی اسکول نہیں لے جائیں گی؟"۔ امی نے بہت پیار سے نینی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "نینی بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے، بابا اور امی کے پاس بہت سے پیسے ہوں گے پھر آپ بہت اچھے اسکول جاؤگی۔۔ " گاڑی سےاترتے ہوئے نینی نے محسوس کیا اس کے جوتوں میں بہت سی گیلی گیلی مٹی بھر گئی ہے۔۔ سر جھکا کر نینی نے بیل کے بٹن پرانگلی رکھ دی۔۔ بہت دیر بعد دروازہ کھلا اور امی نے زن سے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ بڑے سے گھر میں داخل ہوکر بہت دیر تک نینی اپنے چھوٹے سے بھالو کو سینے سے لگائے دالان میں گھڑی رہی۔۔ نینی کو یقین تھا کہ نرم نرم مخملیں بھالو نینی کی دل کی دھڑکن محسوس کر رہا ہے۔ نینی نے خاموشی سے اپنا بیگ کھولا، بسکٹ کا پیکٹ نکال کر کھانے لگی، اپنی بوتل سے پانی پیا اور گھر کے پیچھے والے حصے میں چلی گئی۔۔ آج میں گیلی مٹی سے چھوٹی چھوٹی کتابیں بناؤں گی، اپنے بھالو کو پڑھناسکھاؤں گی۔۔
"نینی یہاں کیا کر رہی ہو؟" نینی نے سر اٹھا کر دیکھا تو دو مسکراتی آنکھوں والے انکل کو اپنی جانب دیکھتے ہوئےپایا۔۔ نینی نے مٹی سے بھرے ہاتھوں سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور خاموش رہنا ہی مناسب جانا۔۔ گیلی گیلی مٹی سے کھیلنا شاید بری بات ہے۔۔ اب یہ انکل بھی نینی کو ڈانٹیں گے۔۔ مگر انکل نے بالکل نہیں ڈانٹا بلکہ جیب سے ایک چاکلیٹ نکال کر نینی کیطرف بڑھا دی۔۔ "اگر میں یہ چاکلیٹ لے لوں تو امی کو تو کوئی نہیں بتائے گا۔۔ ویسے بھی امی بہت دیر سے آتی ہیں"۔
چاکلیٹ کھانے کے بعد انکل اور نینی میں بہت گہری دوستی ہوگئی۔۔ انکل کی شکل چڑیا گھر کے بندر سے ملتی تھی۔۔ لمبے لمبے بے ہنگم ہاتھ۔۔ چھوٹے چھوٹے کان۔۔ اور پھر اچانک ہی سب کچھ بہت خوبصورت ہوگیا۔۔ نینی سارا سارا دن انکل کے ساتھ کھیلتی۔۔ یہ انکل پتا نہیں کہاں سے آتے، روز چاکلیٹ دیتے، نینی کے ساتھ کھیلتے اور بڑی خاموشی سے کہیں غائب ہو جاتے۔۔ نینی نے اپنی اور انکل کی دوستی کے بارے میں کسی کو نہیں بتا یا تھا۔۔ انکل نے منع جو کردیا تھا۔۔ " یہ جو انسان ہوتے ہیں نا ہر اچھی چیزکو خراب کر دیتے ہیں۔۔ اگر تم نے کسی کو بتایا تو ہماری دوستی بھی ختم ہو جائے گی"۔ نینی نے زور زور سے سر ہلا کر انکل کو یقین دلایا کہ وہ کسی کو نہیں بتائے گی۔۔ امی کو بھی نہیں۔۔
دن اور مہینے بہت خاموشی سے گزر رہے تھے۔۔ ایک دن بابا نے امی سے کہا "نینی کمزور لگ رہی ہے۔۔ کیا کھانا ٹھیک سے نہیں کھا رہی ہے؟ امی نے ایک لمحے کو آفس کا کام ایک طرف رکھ کر نینی کو غور سے دیکھا۔۔ کچھ سوچتے ہوئے نینی سے پوچھا۔۔ " نینی کیا بات ہے؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟ بڑی امی نے کچھ کہا؟"
نینی نے محسوس کیا کہ اس کے ماتھے پر ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے کے قطرے جمع ہورہے ہیں۔۔ "یہ انسان ہر اچھی چیز کو خراب کر دیتے ہیں۔۔ " انکل کے کہے ہوئے الفاظ نینی کے لاشعور میں گونج کر رہ گئے۔۔ " نہیں نہیں امی میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ " امی بہت دیر تک نینی کو غور سے دیکھتی رہیں۔۔ "کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔ " نینی نے بیڈ کے نیچے چھپ کر اپنے بھالو سے سرگوشی کی۔۔
جاری۔۔