بُت خانۂ محمل سے کہا ایک صنم نے
پارس کیا پتھر کو ترے جوروستم نے
جب خلد سے نکلے تو کہیں اور نہ ٹھہرے
دل کو نہ دیا چین کسی دیر و حرم نے
خاموش نگاہوں سے کیا شکوۂ بیداد
کہنے نہ دیا حال ہمیں تیرے بھرم نے
دھرانے لگا وقت اُسی بھولی کتھا کو
لکھی تھی کہانی جو کبھی دیدۂ نم نے
انجامِ سخن جان رہا تھا دلِ تنہا
کیا کچھ نہ سکھایا ہمیں قِرطاس و قلم نے
پوچھو گے تو بتلائیں گے دوری کا سبب ہم
کیا کچھ نہ کہا ہم سے ترے ابروئے خم نے
کس طور بھلا گھر کا پتا پوچھ رہے ہیں
پہنچایا ہے جنگل میں ترے نقشِ قدم نے
اب کونسی امید پہ بیٹھے ہو سرِ راہ
دکھ درد ہی بخشے ہیں ترے دستِ کرم نے
رم خوردہ محبت کی پناہ کون نگر تھی
بخشی ہے اماں جس کو فقط ملکِ عدم نے