دیکھو تو اشکبار ہیں یہ چاک اور چراغ
بارش میں سوگوار ہیں یہ چاک اور چراغ
تنہائیوں کے کنج میں بیتے سمے کی چاپ
یک گو نہ یادگار ہیں یہ چاک اور چراغ
اس دھند نے تو چھین لی آنکھوں سے روشنی
اشکوں کا کاروبار ہیں یہ چاک اور چراغ
اس چومکھے چراغ کی ہمت کو ہے سلام
امید کا حصار ہیں یہ چاک اور چراغ
چھو کر میں دیکھتی ہوں ہر اک یاد کی کرن
رنگوں سے مشک بار ہیں یہ چاک اور چراغ