دو گھڑی راہ میں ملتے ہی جدا ہو جانا
مجھ پہ جچتا نہیں اے دوست خفا ہو جانا
طوطئی دل کی بھلا کون سنے محفل میں
بزمِ اغیار میں تو میری صدا ہو جانا
وادئی عشق کی منہ زور ہواؤں سے سنو
عین ممکن ھے محبت میں فنا ہو جانا
تجھ کو پابند وفا کرکے بھی کیا حاصل ہو
تو بدلتے ہوئے موسم کی ادا ہو جانا
اب کہاں شبنمی خوابوں سے مہکتے مسکن
ہے ترا حرف تمنا بھی دعا ہو جانا
تھی وہ تصویر پرانی، وہی دھندلے سے نقوش
ایک دریچہ مرے افکار میں وا ہو جانا