ہوائیں سرد ہیں اور بال و پر میں خاک نہیں
سفر بخیر ہے لیکن سفر میں خاک نہیں
تمھارا خواب سنبھالے تمھارے رستے پر
گو منتظر ہیں مگر رہ گزر میں خاک نہیں
کیا ہے عشق اگر، آگ سے گزرنا بھی
ہزار پھول کھلیں گے شرر میں خاک نہیں
ہیں کون لوگ جو تعبیر چاند کرتے ہیں
رخِ جمال سلامت بدر میں خاک نہیں
نجانے کیوں وہ مخاطب ہے استعاروں میں
جو اعتبار کا رشتہ نظر میں خاک نہیں
جرس کی گونج سے وادی میں ارتعاش سا ہے
کریں گے کوچ مسافر کہ گھر میں خاک نہیں
تمام رات گزاری ہے جس تصور میں
ہے تیرا عکس منعکس سحر میں خاک نہیں