1. ہوم/
  2. افسانہ/
  3. شائستہ مفتی/
  4. نو چندی جمعرات

نو چندی جمعرات

آج پھر نوچندی جمعرات ہے۔

الہڑ ناری نے شام کے آسمان پر نظر ڈالی تو عین وسط میں نوچندی کا ہلال نئی دلہن کی طرح چمک رہا تھا۔ ہلال کے ایک کونے پر ایک چمکدار ستارہ یوں لگا جیسے کہ کسی کے کمانی دار ہونٹوں کے نیچے ایک تل جگمگا رہا ہو۔

اِک رادھا، ایک میرا۔۔

دونوں نے شیام کو چاہا۔۔

وہ ایک ناری ہی تو تھی، دھیمے دھیمے سروں میں گنگنا رہی تھی۔ آج کوئی خاص بات ہے کیا؟

ہاں شاید!

آج نوچندی جمعرات ہے۔ چاند کی پہلی جمعرات۔۔

آج وہ خوب سجے گی، خوب گنگنائے گی، خوب شرمائے گی۔ نوچندی جمعرات کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ آج کوئی اُس کے رستے میں نہیں آئے گا۔ سب ہی راستہ چرا کر گزر جائیں گے، ایک عجیب سی وحشت تھی اُس کی آنکھوں میں، ایسی وحشت جو دور سے نظر آ جاتی ہے۔ کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ناری کا رستہ کاٹ سکے۔ سہ پہر ڈھلتے ہی گلی کے نکڑ سے وہ بہت سے گجرے خرید لائی تھی۔

موتیا کی خوشبو ناری کے دل ودماغ پر کسی نشے کی طرح چڑھ چکی تھی، بالوں میں چنبیلی کا تیل ڈال کر لمبی چٹیا گوندھی، خمار آلودہ آنکھوں سے ناری نے آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا۔ بسنتی رنگ کی ساڑھی میں لپٹا اُس کا سراپاِ، وہ اب بھی نو خیزلگ رہی تھی۔ ایک اَدھ کھلی کلی کی طرح، ایسی کلی جو کبھی مکمل پھول نہ بن پائی۔ شاید مگس اُس کی طرف آتے آتے راستے میں ہی کہیں گھو گیا۔ جانے کس منحوس گھڑی کی بددُعا تھی جو ناری دن رات جلتی رہتی مگر برسات کسی اور ہی چھت پر برس جاتی۔

وہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے، کون آیا، کون گیا، کسی سے کچھ پوشیدہ نہ تھا۔ سامنے والے گھر میں کچھ نئے لوگ آکر بسے تھے۔ پورے محلے میں باتیں ہو رہی تھیں۔ کون لوگ ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کب تک رہیں گے؟

ایک دن وہ گھر کی چھت پر کپڑے پھیلانے گئی تو اُس نے دیکھا کی ایک خوبرو نوجوان سامنے والے گھر سے نکلا۔ دروازے کے پیچھے سے کسی نے ٹفن پکڑایا اور وہ سیدھا لمبے لمبے قدم اُٹھاتا کسی سمت نکل گیا اور ناری دیکھتی ہی رہ گئی۔ یوں لگا جیسے جانے والا اپنے پیچھے پھولوں بھرا راستہ چھوڑ گیا ہو۔۔ ناری اُس راستے پر چلنا چاہتی تھی۔۔ مگر وہ صرف دیکھتی ہی رہ گئی۔

ایک دن وہ رسوئی میں روٹیاں پکا رہی تھی کہ کسی نے بتایا کہ سامنے والے گھر میں کوئی پڑھے لکھے بابو رہنے آئے ہیں۔ بابو کا ذکر آیا تو ناری کے کان کھڑے ہوئے۔

اور سنا ہے بابو کی کامنی سی بیوی بھی ہے اور ایک پیاری سی چھوٹی منی بھی ہے۔

اچانک ناری کا ہاتھ جلتے توئے پر پڑ گیا۔ ہائے! پتہ نہیں یہ ہائے ہاتھ جلنے کی تھی یا دل!

ناری کا دل کسی چیز میں نہ لگا۔ دن ہو یا رات ہر لمحہ وہ سامنے والے گھر کا جائزہ لیتی رہتی من ہی من میں تڑپتی رہتی۔۔ بابو کی صرف ایک جھلک کے لیے۔۔ دل و دماغ کو کسی سمے سکون نہ ملتا۔ سامنے والے گھر سے کبھی کبھی کسی کے ہنسنے کی آوازیں بھی آتیں۔ کبھی کسی بچے کی کلکاریاں بھرنے کی آوازیں بھی آتیں۔ ناری اندر ہی اندر بھڑک بھڑک کر رہ جاتی۔۔ کاش کہ بابو مجھے مل گیا ہوتا! میں تو شاید اُس کی پوجا کرتی۔۔ بابو کو پتا ہی نہیں کہ وہ کتنا چاہے جانے کے لائق ہے۔ میں تو اُس کی ایک داسی ہی بن کر جینا چاہوں گی اور پھر وہ خیالوں ہی خیالوں میں بابو کے ساتھ رہنے لگی۔۔ حقیقت کیا ہے؟ ناری کو اِس سے کوئی سرو کار نہ تھا۔ اِسی ایک خواہش نے ناری کے پورے وجود کو اپنے حصار میں لے لیا اور وہ خود کچھ بھی نہ رہی۔ کسی کو پتہ بھی نہ چلا اور وہ سب کے لیے پرائی ہوگئی۔۔ ناری ایک سراپا دِیا بن کر سرِ شام جلتی جسے کسی منڈیر پر کوئی رکھ کر بھول گیا ہو۔۔

شاید وہ نوچندی جمعرات ہی تھی جب گھر کے دروازے پر جمعراتی بابا نے صدا لگائی۔۔ پھر آیا جمعرات کا جمعراتی بابا۔۔ ہے کوئی جو بابا سے دُعا لے۔۔ ہر مراد پوری ہوگی۔ ناری دوڑ کر دروازے پر آئی۔۔ بابا! میرے پاس تمہیں دینے کو تو کچھ نہیں ہے مگر ایک مراد ہے جو مجھے چین نہیں لینے دیتی، کیا تم میرے لیے دُعا کر سکتے ہو۔ بابا نے چھوٹی چھوٹی آنکھیں سکیڑ کر کہا:

دُعا تو میں مانگ لوں گا مگر تمہیں کچھ دینا تو ہوگا۔ کیا دو روٹی کا آ ٹا بھی نہیں تمہارے پاس؟

ناری اُلٹے قدموں گھر کے اندر گئی اور چھوٹی پرات میں دو روٹی کا آ ٹا لے آئی۔ بابا نے جھولی پھیلائی اور آٹا اُس کی جھولی میں سما گیا۔ بابا نے شفقت سے ناری کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور محبت آمیز لہجے میں پو چھا کیا مراد ہے تمہاری؟ ناری اِس سوال پر سسک پڑی۔ آنسو موتی بن بن کر رخسار پر بہہ نکلے۔

بابا نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے صدا لگائی: تیری مراد ضرور پوری ہوگی۔

ناری میں جانے کہاں سے اتنی ہمت آ گئی: بابا یہ سامنے والے گھر میں میرا جیون ساتھی رہتا ہے مگر وہ کسی اور کے ساتھ رہتا ہے آپ کو تو پتا ہوگا، وہ صرف میرا ہے صرف میرا ہے، میں چاہتی ہوں اُس کا گھر ٹوٹ جائے اور وہ میرے پاس آ جائے اور صرف میرے ساتھ رہے۔

ناری یہ سب کہہ کر خود ہی اپنے اجنبی لہجے پر حیران ہوگئی۔ اُس کے الفاظ فضا میں چنگاریوں کی طرح فشار بن کر پھیل گئے۔ نارنجی رنگ کی چنگاریاں جو سب کچھ جلا کر بھسم کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں ناری نے ایک لمحے کو رک کر سوچا۔ کیا یہ میں ہوں؟ ہاں! یہ میں ہی ہوں؟ زندگی میں اگر مجھے بابو نہ ملا تو اور رکھا ہی کیا ہے میرے پاس!

بابا جی ایک گہری خاموشی میں ڈوب گئے۔ آنکھیں بند کرکے وہ جانے کیا سوچتے رہے اور پھر جب انھوں نے آنکھیں کھولیں تو اُن کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے لمبے سے جبے کی جیب سے ایک تعویز نکالا اور ناری کے ہاتھ میں تھما دیا۔۔ یہ تعویز بابو کو گھول کر پلا دینا۔۔ آج نوچندی جمعرات ہے۔۔ نوچندی جمعرات کو سلگایا ہوا چراغ کبھی نہیں بجھتا، کوئی اگر اس چراغ کو بجھانے کی کوشش کرے تو خود جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔

ناری نے تعویز اپنی مٹھی میں دبا لیا جیسے تعویز نہ ہو بلکہ اس کی زندگی ہو۔ اُس شام ناری کی سج دھج دیکھنے والی تھی۔ گلابی چنریا جس کے چاروں طرف کرن لگی تھی، گالوں پر غازہ کی ہلکی سی تہہ، ماتھے پر سنہری بندیا، مانگ میں افشاں کی دھار، بانہوں میں گجرے۔ چپکے چپکے ناری نے ساری تیاری مکمل کر لی۔ دودھ میں زعفران گھولا اور بابا کا دیا ہوا تعویز ڈال کر گلاس تپائی پر رکھ دیا۔ سرِ شام ہی کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ بابو آتا ہی ہوگا! شام کی شفق دھیرے دھیرے آسمان کو گلابی کر رہی تھی اور پھر وہ دور سے آتا دکھائی دیا۔

گلی کے نکڑ سے مڑ کر اُس نے سیدھا اپنے گھر کا رستہ لیا۔ ناری نے جلدی سے دودھ کا گلاس اُٹھایا اور بیچ راستے میں آ کھڑی ہوئی، بابو رستہ بچا کر نکلنا چاہتا تھا مگر ناری نے پیچھے سے آواز دی۔ بابو ٹھٹھک کر رکا:

مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟ بابو کی ذہین آنکھوں میں حیرانی تھی۔ وہ آنکھیں۔۔ اُن آنکھوں میں وہ ڈوب کر اُبھر ہی نہ پائی۔۔ بس ڈوبتی چلی گئی۔۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بابو نے جانے کے لیے قدم بڑھایا ہی تھا کہ ناری نے جھٹ سے دودھ کا گلاس آگے کر دیا:

یہ فاتحہ کا دودھ ہے امی نے بھیجا ہے۔ بابو حیران نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھنے لگا۔ ناری پھر گویا ہوئی۔ وہ امی نے منت مانی تھی کہ اچھا پڑوس ملے اور آپ لوگ تو بہت اچھے ہیں اس لیے آپ کے لیے۔ بابو نے ہچکچاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا کر گلاس پکڑا اور جانے لگا۔ ناری جھٹ سے بولی:

آپ ابھی پی لیں ورنہ گلاس دینے آنا پڑے گا۔ بابو کسی سوچ میں پڑ گیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔ خالی گلاس اُس کی طرف بڑھایا اور تیزی سے گھر میں داخل ہوگیا۔ ناری کا انگ انگ خوشی سے ناچنے لگا، بس ہوگیا کام۔۔

جیسے گھڑی چلتی ہے ٹک ٹک ٹک ناری کو انتظار تھا کچھ ہونے والا ہے۔ دوپہر کا آسمان، آگ برساتاسورج، رات کو چاند تارے چپ سادھے کسی انہونی کے منتظر تھے۔۔ ٹک، ٹک، ٹک۔۔

ایک سہ پہر ناری گھر کے آنگن میں لگے نیم پر چڑیا کے گھونسلے کو غور سے دیکھ رہی تھی اچانک ہی سامنے والے گھر سے کسی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں، کچھ دیر تو کسی کی سمجھ نہ آیا کہ معاملہ کیا ہے؟ کافی دیر بعد سمجھ آیا کہ سامنے والے گھر میں لڑائی جھگڑا ہو رہا ہے۔ سب حیران تھے کہ اِس ہنستے بستے گھر کو کیا ہوگیا ہے؟ ناری نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور مسکرانے لگی جیسے رب کا شکر ادا کر رہی ہو۔ پہلی منزل تو پار ہو ہی گئی۔

ارے بابو تو صرف میرا ہے۔۔! میں ہی تیری رانی ہوں۔

بابو کی بیوی کے بارے میں سوچ کر ناری کے دل میں ایک شدید نفرت کی لہر اُٹھی۔ جی چاہ رہا تھا کہ ابھی جا کر اُس کو کسی بے جان گڑیا کی طرح کہیں دور دفن کر آئے۔

سارے محلے والے حیران تھے جس گھر سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آتی تھیں، آخر ایسا کیا ہوا کہ وہاں سے صرف لڑائی کی آوازیں آنے لگی ہیں۔ صرف ناری ہی جانتی کہ تھی کہ نوچندی جمعرات اب آنے ہی والی تھی اور صرف ایک تعویز اور پلانا ہے بابو کو اور پھر بابو ہمیشہ کے لیے ا ُس کا ہو جائے گا۔

اِس بار نوچندی جمعرات پر ناری نے پہلے سے بھی زیادہ اہتمام کیا۔ لال دوپٹہ پر سکیا لگائی، قمیض کے گلے پر چمپا لگائی، بالوں میں چنبیلی کا تیل ڈالا اور ماتھے پر سنہری بندیا، گجرے بانہوں میں اور مانگ میں افشاں۔ جمعراتی بابا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہر جمعرات ناری کو ایک تعویز دے کر جائے گا جب تک کہ اُس کی مراد بر نہ آئے گی۔ شام کو جمعراتی بابا نے صدا لگائی تو ناری دو روٹی کا آٹا لیے پہلے ہی سے دروازے پر موجود تھی۔۔ بابا نے آٹا لینے کے لیے جھولی پھیلا دی اور ایک ہاتھ سے تعویز ناری کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔

نیا نکور ہلال جب آسمان پر نمودار ہوا تو ناری نے اپنی آنکھیں بند کیں اور تصور میں بابو کے ساتھ بہت دور نکل گئی۔ آج جانے کیوں بابو کو بہت دیر ہوگئی۔

کب سے زعفران ملے دودھ کا کلاس لیے وہ بیچ رستے پر کھڑی تھی۔ شام کے سائے جب رات کے اندھیرے میں گڈ مڈ ہونے لگے تو ناری کو بابو کا سایہ نظر آیا۔ بوجھل اور تھکے تھکے قدموں کے ساتھ وہ چلتا ہوا گھر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ناری کو یوں لگا جیسے وہ گھر جانا ہی نہ چاہ رہا ہو مگر پھر بھی مجبور ہو۔ ناری نے دل ہی دل میں بابو کو دلاسہ دیا:

بس کچھ دن اور۔۔ پھر میں ہوں نا آپ کی داسی! سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔

بابو نے خالی خالی آنکھوں سے ناری کو دیکھا۔

بابو کی بے خواب آنکھوں میں ایک سوالیہ نشان تھا۔ ناری کو کچھ بن نہیں پڑا توجھٹ بہانہ بنا کر بولی:

بابو میں نے دسویں پاس کر لی ہے نا، اِس لیے، اماں نے منت مانی تھی۔

بابو کسی غیر مرئی طاقت کے زیر اثر اُس کی جانب بڑھا اور ایک ہی سانس میں پورا گلاس پی گیا اور بغیر رکے اپنے گھر کی جانب چل دیا۔

جیسے طوفان گزر جانے کے بعد سکوت چھا جاتا ہے ایسے ہی ہر طرف خاموشی چھا گئی، اب نہ لڑنے جھگڑنے کے آوازیں آتیں اور نہ ہی کسی بچے کی رونے کی آوازآتی، بالکل خاموشی۔۔ لگتا تھا سامنے والے کہیں چلے گئے ہیں مگر سامان تو کسی نے جاتے نہ دیکھا، پھر کہاں گئے یہ لوگ، رات کو بھی اس گھر پر اندھیرا چھایا رہتا۔۔ کہیں کوئی چراغ نہ جلتا، حیرت ہی ہے کہاں گئے یہ لوگ؟

ناری کو یقین تھا کہ نوچندی جمعرات کو بابو ضرور آئے گا۔۔ میری کشش اُسے لائے گی؟

لمحہ لمحہ بوجھ بن کر گزر رہا تھا اور پھر آخر کار نوچندی جمعرات آ ہی گئی۔ شام سے پہلے ناری نے خوب اپنے آپ کو سجایا اور سنوارا۔۔ رات گئے تک کھڑکی میں کھڑے ہو کر بابو کا انتظار کیا۔۔ مگر اُسے مایوسی ہوئی۔۔ اچانک سامنے والے گھر میں مدھم سی روشنی دکھائی دی۔۔ بابو!

ناری نے جلدی سے ایک مٹی کا دیا اُٹھایا اور رستہ پار کرکے سامنے والے گھر کے سامنے پہنچ گئی، سامنے کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ دیا ہتھیلی پر جمائے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی گھر کے دالان میں پہنچ گئی جس کمرے میں سے روشنی آ رہی تھی، وہاں ایک لڑکی سفید دوپٹہ اوڑھے سامان باندھ رہی تھی۔۔

ناری نے قریب پہنچ کر لڑکی کو مخاطب کیا: بابو کہاں ہے؟

لڑکی نے اپنا چہرہ اُٹھایا تو ناری کو احساس ہوا کہ سفید دوپٹے میں لپٹے اُس لڑکی کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ کون بابو؟

ناری کیا جواب دیتی وہ تو بابو کا نام تک نہ جانتی تھی۔۔ کانپتے ہونٹوں سے ناری نے پھر سوال کیا:

وہ جو یہاں رہتے تھے۔

اُس لڑکی کی آنکھوں میں آنسوؤں کی دھار نمودار ہوئی۔ نظریں جھکا کر لڑکی نے جواب دیا:

وہ تو گزر گئے۔ اُن کی تدفین بھی ہو چکی ہے۔ میں اپنے بچے کا کچھ سامان لینے آئی ہوں۔

ناری کے ہاتھ سے مٹی کا دِیا زمین پر گر کر چکنا چور ہوگیا، ہر طرف تیل ہی تیل پھیل گیا، ناری کے سر سے چمکدار چنری زمین پر گری اور چنری نے آگ پکڑ لی۔ اچانک آگ سے اندھیرے کمرے میں ہر طرف خوفناک ہیولے بننے لگے جیسے بہت سی روحیں ماتم کناں ہوں۔۔!

نوچندی کا ہلال آسمان پر مسکرا رہا تھا اور ایک ستارہ چاند چھونے کی نا کام کوشش کر رہا تھا اور پھر یونہی ہونے لگا۔ ہر نوچندی جمعرات کو جب ہلال آسمان پر مسکراتا۔۔ ناری کے چہرے پر بھی ایک وحشت زدہ مسکراہٹ آ جاتی اور وہ بڑے چاہ سے تیار ہوتی، بالوں میں چنبیلی کا تیل ڈالتی گالوں پر غازہ لگاتی اور ماتھے پر سنہری بندیا سجا کر مٹی کا دِیا لے کر گلی میں نکل جاتی۔۔ بچے بوڑھے اور جوان اُس کی آنکھوں کی وحشت سے ڈر جاتے اور دور ہی سے اپنا رستہ بدل لیتے۔