روشنیوں کا کھیل جہاں تک لے جائے
سانس کا رشتہ اور کہاں تک لے جائے
جنگل کے اُس پار بسیرا ہے اس کا
آس اُمید کا ساتھ وہاں تک لے جائے
چاہت کے انمول سجیلے بولوں سے
ہر جذبہ، ہر خواب زباں تک لے جائے
یہ گلیاں سرسبز ہوئی ہیں یادوں سے
آنکھوں کا ہر عکس بتاں تک لے جائے
ہر رشتہ امکان کی زد میں رہتا ہے
ہرجائی کو کون مکاں تک لے جائے
لفظوں جیسے پھول کھلے ہیں باغوں میں
خوشبو کا احساس بیاں تک لے جائے
کتنے ضبط کا عالم ہوگا گلشن پر
جب گلچیں انجام خزاں تک لے جائے