1. ہوم/
  2. غزل/
  3. شائستہ مفتی/
  4. شہرِ دل تیرے خرابوں کی یہ تقدیر نہیں

شہرِ دل تیرے خرابوں کی یہ تقدیر نہیں

شہرِ دل تیرے خرابوں کی یہ تقدیر نہیں
بات بن جائے کسی طور بھی تدبیر نہیں

چارہ گر تیری نوازش، ترا احسان مگر
زخم بھر جائیں جو اس دل کے وہ اکسیر نہیں

آج پھر تیر بکف دوست ملے رستے ہیں
اک جنوں خیز روایت ہے یہ تقصیر نہیں

نامہء دل جو ملا ہے ترا مقبول تو ہے
آنسوؤں سے جو لکھی جائے وہ تحریر نہیں

تو نے جو محل بنایا ہے، سجایا ہے مگر
دل مرا دوست کوئی بکنے کی جاگیر نہیں

لوٹ تو آؤں پلٹ کر ترے آوازے پر
شہرِ ویران میں اندیشوں کی تفسیر نہیں