مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم نے زندگی میں مٹھائی تین ہی مواقع پر بانٹی ہے یا گھر میں شادی و بچوں کی خوشیوں کی مرتبہ اور یا 17 اگست 1988۔ ۔ ۔ سترہ اگست کو تو جیسے منٹوں میں مٹھائی کی دکانیں خالی ہو گئیں۔ ۔ ۔ ملک کے یومِ آزادی کے بعد جیسے یہ عوام کی آزادی کا دن تھا۔ ۔ ۔
سترہ اگست کو ایسے خوشی سے لوگ گھروں سے باہر نکلے جیسے قیدی آزادی پانے پر نکلتے ہیں یا پرندے پنجرہ کھلنے پر بے قراری سے نکلتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سترہ اگست نے ثبوت دے دیا کہ جسے دشتِ نینوا میں جیت نوکِ خنجر پر رگِ گردن کی ہوئی تھی ویسے ہی وہ مظلوم بھٹو جسے ایک ظالم ضیاع کانا نے پھانسی پر لٹکایا تھا وہ آج بھی زندہ ہے مگر ظالم ضیاع کانا زندگی میں ہی جہنم کی آگ میں جل کر فنا ہوا۔ ۔ ۔ جیت رگِ گردن کی ہوئی۔ ۔ ۔
جس بھٹو کے جنازے پر گھر والوں تک کو آنے کی اجازت نہ تھی اس کا مقبرہ آج بھی مرجعِ خلائق ہے اور کانے دجال کی قبر ویرانی کا استعارہ بن چکی ہے۔ ۔ ۔
جیسے تا قیامِ قیامت ہر قتل کے گناہ کا ایک حصہ قابیل کے نامہ اعمال میں جائے گا ویسے ہی اس ملک میں ہونے والے ہر دہشتگرد و فرقہ وارانہ حملے کا بحیثیت ذمہ دار ایک حصہ اس کانے ملعون کے نامہِ اعمال میں ضرور لکھا جائے گا۔ ۔ ۔
جیسے نامِ رسول ص و حسین ۴ بھی زندہ ہیں اور لوگ لعنت بھیجنے کیلیے ابو جہل و یزید کو بھی جانتے ہیں ویسے ہی بھٹو کے نام کیساتھ لوگ ضیاع کانے کے نام سے بھی واقف ہیں مگر صرف لعنتیں بھیجنے کیلیے۔ ۔ ۔
اس ملعون کے گھناؤنے کردار کو سمجھنے کیلیے یہی کافی ہو گا کہ بھٹو کہتے ہوئے (ذوالفقارِ علی ع) منہ سے نکلتا ہے اور ضیاء کہتے ہوئے کانا دجال۔ ۔ ۔
شاید اس ملک میں کسی شخص کے حصے اتنی نفرت نہ آئی ہو گی جتنی اس ملعون کے حصے آئی کہ زندگی مین ہی فی النار ہونے کے باوجود جس پر صبح شام دن رات بے حساب لعنتیں پڑتی ہیں۔ ۔ ۔
پاکستانی نژاد برطانوی صحافی طارق علی نے پاکستانی سیاست کے اوپر ایک کتاب لکھی جس میں وہ پاکستانی سیاسی تاریخ کے اہم ترین کرداروں بھٹو اور ضیاء کو زیرِ بحث لائے، اس کتاب کا نچوڑ اس کے عنوان میں تھا جو پوری تاریخ بتا رہا تھا اور بہت سی کتابوں پر بھاری تھا۔ ۔ کتاب کا عنوان تھا
The leaopard and the fox،
A PAKISTANI TRAGEDY
ذوالفقارِ علی ایک شیر تھا، شیر کی طرح جیا، موت کو سامنے سے قبول کیا، ظالم نے ظلم کا ہر حربہ آزما لیا مگر وہ حق پر ڈٹّا رہا، دوسری طرف ایک لومڑ تھا، جو زندگی بھر لومڑی کی طرح منافقانہ چالیں چلتا رہا، اور اس وقت جبکہ اس کو تقدس دینے کے لیے اس وقت کی ہیئتِ مقتدرہ نے فیصل مسجد کے دروازے کے باہر اسے دفن کیا تاکہ مسجد کی خاطر ہی سہی شاید کوئی آتا جاتا اس کی قبر پر بھی فاتحہ پڑھتا جائے گا مگر حالت یہ ہے کہ اس جگہ کا نام جبڑا چوک پڑ چکا ہے۔ کتے اس کی قبر پر بیٹھے ہوتے ہیں کسی اور نے کیا جانا ہے اس کے اپنے سیاسی بیٹے اس کی قبر پر جانا اپنے لیے باعثِ شرمندگی و ذلت کا سامان سمجھتے ہھں۔
آج کے دن، ۱۷ اگست کو سمجھنے کیلیے یہ جملہ ہی کافی ہے کہ
ضیاء تھا، اور بھٹو ہے۔ ۔ ۔ ۔ !
آپ سب احباب کو ظلم کی کالی چادر چھٹنے اور امید کے سورج طلوع ہونے کا دن سترہ اگست بہت مبارک ہو۔ ۔ ۔