ہر علاقے کی ایک سیاسی شناخت ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ہوتی ہے جو اپنے علاقے کے سیاسی رویوں کی پہچان بن جاتی ہے۔ ۔ ۔
ایسے ہی لاہور جسے پاکستِان کی سیاست کا دل مانا جاتا ہے۔ اگر آپ نے لاہور کا سیاسی مزاج دیکھنا ہو۔ ۔ بھٹو کے جیالے کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو ذہن میں فوراً ڈاکٹر جہانگیر بدر کا نام آتا ہے۔ ۔ ۔ جو زندہ رہا تو بھٹو، اس کے خاندان، اس کے افکار اور جمہوریت کا علمبردار بن کے زندہ رہا۔ ۔ اور مرنے کے بعد یہی ورثہ اپنی اولاد اور چاہنے والوں کو منتقل کر گیا۔ ۔ شاعر نے شاید جہانگیر بدر کے لیے ہی کہا ہو گا کہ۔ ۔
ہم وفاؤں میں درختوں کی طرح ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں مگر اپنی جگہ بدلا نہیں کرتے
پپلز پارٹی کے لیے تمام تر چاہت کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اپنے آخری وقتوں بالخصوص شہید رانی کے جانے کے بعد ان کے دیگر مخلص ساتھیوں کی طرح ڈاکٹر جہانگیر بدر کو بھی کارنر کر دیا گیا اور ان کی قدر نہ کی گئی وہ جو تمام عمر آمروں کے خلاف لڑتا رہا اسی کے اوپر آمر کے ساتھیوں کو بٹھا دیا گیا۔ ۔ ۔ مخدوم صاحب کے بعد بھٹو صاحب کا ایک اور ساتھی ان سے وفا اپنی زندگی کی آخری سانس تک نبھا گیا۔ ۔ ۔
بھٹو صاحب کے ساتھی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ان کے جانے کی بعد پارٹی تہی داماں لگتی ہے۔ ۔ ۔ بھٹو باقیات ختم ہو رہی ہے۔ جو باقی رہ گئی ہے اس کی عوام کی نظروں میں حیثیت نہیں۔ اب تو جیالوں کی قلبی کیفیت بھٹو صاحب کیلیے یہی ہے کہ
دھڑکنیں تو ہو گئیں کب کی تمام
اب جو باقی ہے تمارا عشق ہے
ایسے ہی پارٹی تو بھٹو صاحب کی دن بدن مٹتی جا رہی ہے یہ بس بھٹو صاحب کے لیے جیالوں کے دلوں میں عشق ہے جس نے پارٹی کو سلامت رکھا ہوا ہے۔ ۔ ۔ بہرحال پارٹی کے چاہنے والوں کیلیے پارٹی کا یہ زوال دیکھنا بہت کٹھن ہے۔ ۔ جس پارٹی کیلیے کوڑے کھائے ہوں اسی پارٹی کو مٹی میں ملتے دیکھنا ممکن نہیں۔ ۔ ۔ ڈاکٹر جہانگیر بدر بھی ہمت ہار گیا اور جس بدر کو آمر کے کوڑے نہ ہلا سکے تھے۔ ۔ وہی بدر دل کا دورہ نہ سہ سکا اور اپنے خالقِ حقیقی سے جاملا۔ ۔ خدا جانے یہ دورہ کسی بیماری کی وجہ سے تھا یہ اپنوں کی بے اعتناعی کی وجہ سے تھا۔ ۔ جو بھی تھا جہانگیر بدر کے جانے کے بعد لاہور کے جیالے یتیم ہو گئے
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا