کیا انٹرنیٹ/سوشل میڈیا نے نوجوان نسل میں روایتی میڈیا (پرنٹ، الیکٹرانک) کی اہمیت کم کر دی ہے؟
ہمارے ہمسایے میں واقع خلیجی ممالک میں اخبارات کو سرکولیشن کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
انگریزی اخبارات اپنی سالانہ سبسکریپشن پر تقریباً جتنا آپ ادا کرتے ہیں اتنے کے شاپنگ واؤچر آپکو دیتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی ترغیب ہے کہ آپ اخبار خریدیں ضرور، یہ خریداری منقطع مت کیجیے۔
اردو اخبار دو چھپتے تھے، نہایت سستے تھے مگر پھر بھی دونوں بند ہو چکے۔
پاکستان کے اردو اخبارات کے جو نیٹ ایڈیشن آتے تھے اور کبھی نوجوان نسل میں نہایت مقبول تھے گزرتے وقت کے ساتھ ان کی مقبولیت بھی گراوٹ واقع ہو رہی ہے۔ جہاں روزانہ سو سے اوپر کالم اخبارات میں چھپتے ہیں وہاں کالم نویسوں کے مستقل قارئین کی تعداد دن بدن گر رہی ہے۔ ایک دور تھا جب منو بھائی، ارشاد احمد حقّانی، نذیر ناجی، حسن نثار، عبّاس اطہر، حامد میر، جاوید چوہدری، ارد شیر کاوس جی وغیرہ کے مستقل قاری تھے جو ان کے نام پر اخبارات خریدتے تھے۔ آج شاید نوجوان نسل کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کس اخبار میں کون سا کالم نویس لکھتا ہے۔
تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ہماری روزمرہ زندگی سے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے؟ خبریں تجزیوں کے ساتھ ٹی وی پر دستیاب ہیں، تحریریں سوشل میڈیا پر موجود ہیں پھر اخبارات خرید کر پڑھنے کا رجحان زوال پزیر ہے۔
فیوچر ایکسپلوریشن نیٹورک ریسرچ نے امریکہ میں ایک رپورٹ ۲۰۱۴ میں شائع کی تھی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ۲۰۴۰ تک دنیا سے اخبارات کا چھپنا تقریباً ختم ہو جائے گا یا بہت کم رہ جائے گا۔ اور حالات اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کی مثال لیجیے جہاں ۱۹۹۴ میں اخبارات کی سالانہ اشاعت ساٹھ ملین تھی جو کہ اب پرنٹ اور آن لائن سبسکریپشن ملا کر ۳۵ ملین رہ چکی ہے۔ اخبارات کی اشاعت کو پچھلے ۲۴ سالوں میں مسلسل گراوٹ کا سامنا ہے۔ اور یہ ۱۹۴۵ سے اب تک کی کم ترین سطع پر ہے۔ امریکہ کے ساتھ یہی رجحان آپکو پوری دنیا میں نظر آتا ہے۔
برطانیہ میں پچھلی ایک دہائی میں ہر دس میں سے ایک اخبار/ جریدے کی اشاعت یا آدھی رہ چکی ہے یا وہ بند ہو چکے ہیں۔ دی انڈیپینڈنٹ جیسا اخبار بند ہو چکا۔ دی سن، ٹیلیگراف، دی مرر کو اشاعت کی مستقل گراوٹ کا سامنا ہے۔
خلیجی ممالک میں انگریزی اخبارات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور نئی نسل کو اپنی عربی زبان کے اخبارات پڑھنے میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن وہ اخبارات بند اس لیے نہیں ہوئے کیونکہ یہاں کی عوام تک سرکاری نکتہِ نظر پہنچانا ضروری ہے۔
پاکستانی میڈیا ہاؤسز میں حالیہ نوکریوں سے چھانٹیاں اسی تناظر میں دیکھنے اور اس دور کے تقاضوں کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔
آپ مدیران و مالکان کو عدالت میں بلا کر ڈانٹ ڈپٹ کر لیجیے لیکن مالکان، کاروبار منافع کمانے کے لیے کرتے ہیں اور جہاں ان کو منافع نہیں ملے گا وہ اپنا خرچ کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہی ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس بدلاؤ کو آنے سے نہیں روک سکتی جس بدلاؤ کے آنے کا وقت آ چکا ہو۔
اب یا تو اخبارات و جرائد کو اپنا معیار بہت بلند کرنا ہو گا جیسے گارڈین، نیو یارک ٹائمز وغیرہ کا ہے کہ لوگ اسے خریدتے ہیں اس لیے کیونکہ وہاں چھپنے والی خبریں، رپورٹس اور تجزیے ایکسکلوسو اور بے لاگ ہوتے ہیں۔ اگر ذرا بھی ان کے معیار میں کمی آئے تو قاری چھوڑ دیتا ہے۔ یہی کچھ یہاں ہو گا اب جیسے پہلے سے چلتا رہا ہے ویسا چلانا چاہیں گے تو ایسا چلتا اب نظر نہیں آتا۔