تین اکتوبر ۲۔۱۷ کو فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کی دوسری برسی تھی، خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔ وہ والدین بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جنُکی اولاد دنیا میں ان سے ہٹ کے اپنا ایک الگ مقام بنائے۔ ڈاکٹر صاحب ایک بڑے بلکہ ایک عہد ساز باپ کے فرزند تھے۔ جیسے کہتے ہیں کہ برگد کے پیڑ کے نیچے درخت نہیں اگ سکتا ویسے ہی اکابرین کی اولاد کی شخصت اپنے والدین کے بڑے نام کے نیچے دب کے رہ جاتی ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے باپ کے اپنے نام جاوید نامہ میں دیے پیغام کو پورا کرتے ہوئے اپنا ایک الگ مقام بنایا
دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
اقبال نے برطانیہ سے قانون پڑھا، جاوید بھی اسی ادارے تک پہنچے اور اپنے باپ کی مادرِ علمی سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اقبال نے قانون پڑھنے کے بعد اپنے پسندیدہ مضمون فلسفہ پر کام کیا اور اسی میں پی ایچ ڈی کی تو جاوید بھی پھر جدید مسلم فلسفہ پر کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کر کےبرطانیہ سے لوٹے۔
اقبال پر بہت سے تاریخ دانوں اور نقّاد نے کام کیا۔ اور ادب میں ایک صنف اقبالیات کا اضافہ ہوا۔ اقبال شناس کے طور پر بہت سے نام آتے ہیں مگر جس طرح بالخصوص پاکستان سے باہر ڈاکٹر جاوید اقبال کوُبحیثیت ماہر اقبالیات قبولیتِ عام ملی وہ شہرت اور عزت کسی اور کے حصے نہ آئی۔
ڈاکٹر صاحب نے شرحِ کلامِ اقبال پرُبہت قابلِ قدرُکام کیابالخصوص خطباتِ اقبال ِ افکارِ اقبال Iqbal in Politics، The concept of State in Islam، زندہ رود، مئے لالہ فام، وہ کتب ہیں جو قابلِ زکرُہیں
ڈاکٹر صاحب کی کتاب اپناُگریباں چاک پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیے۔ جس میں کہیں آپ نے نہ اپنے آپ کو نہ اپنے پدرِ گرامی کو کوئی الگ ہی نیک پارساُمخلوق دکھانے کی کوشش کی بلکہ کتاب پڑھ کے ان سے اور اقبال سے ایک انسیت ہونے لگتی ہے اور وہ قاری کو اپنے اپنے جیسے دکھتے ہیں۔
اس کتاب میں اگر ایک جگہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے واقعاتِ زندگی بیان کیے وہیں فلسفہِ اقبالُ آسان پیرائے میں سمجھانے کی بھی کوشش کی۔
آپ نے دو قومی نظریہ اور نظریہِ پاکستان پر بھی کھل کے اپنی رائے دی اور اقبال کی رسولِ اکرم ص و اہلِ بیت علیماالسلام سے بھی عقیدت کھل کے بتائی۔ اس کے علاوہ اقبال کے فلسفہِ مردِ مومنِ فلسفہِ خودی فلسفہِ وطنیت و قومیت، فلسفہِ عشق اور فلسفہِ شاہین اور ان کے معروف اور متنازعہ فلسفہِ حیات بعد از ممات پرُبھی مدلل انداز میں گفتگو کی۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبی اپنی بات بنا لاگ لپٹ کے صاف انداز میں کہ دینے کی تھی۔ اسی انداز کے ساتھ آپ نے اپنی کتاب اپنا گریباں چاک میں اے روحِ اقبال کے نام سے درج اپنے باب میں روحِ اقبال سے جو سوال جواب کیے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں آپ نے آج کی اور ڈاکٹر صاحب کی نسل کے دل میں پنپاں سوالات روحِ اقبال سے عالمِ افکار میں سامنے رکھے اور ان سے ان پر جواب لی۔
ڈاکٹر صاحب نے معروف معنوں میں ایک نہایت کامیاب زندگی گزاری، پاکستان کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہلالِ امتیاز، سینٹ کی رکنیت، مسلم لیگ کی جنرل سیکڑی شپ، دنیا بھر میں عزت، عالمی تنظیموں بشمول اقوامِ متحدہ میں بحیثیت مندوب شرکت اور لیکچرز، پوری دنیا میں سیمینارز میں بحیثیت مہمان مقرر دعوت نامے، بحیثت فلسفے کے نقاد کے ایک مستند حیثیت۔ بحیثیتِ قانون دان عدالتِ عظمیٰ کے معززُ سنئیر جج، باپ تو وہ عالمی شہرت یافتہ، بیوی تو وہ جج، بیٹے تووہ قانون میں بیرونِ ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اورُنہایت کامیاب قانون دان۔
آج وہ ہم میں نہیں خدا ان کی مغفرت فرمائے۔ اقبال کا ایک نظریہ تھا کہ حیات بعد از موت ہر زئ روح کے لیے نہیں ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس پر اس دنیا میں تو بے بہا بحثیں ہو سکتی ہیں اور دونوں ڈاکٹر باپ بیٹے نے کی بھی بہر حال اب وفات کے بعد ضرور ڈاکٹر صاحب کو اپنے اس سوال کاُجواب مل گیا ہو گا۔
آخر میں ان کی کتاب اپنا گریباں چاک میں لکھے پیش لفظ کی آخری دو سطریں جو شاید ان کا حاصلِ زندگی تھا
"میں نے کن حیلوں سے ایک بہت بڑے درخت کے سائے سے نکل کر اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تگ و دو کے اس عالم میں کیا میں اس سائے سے نکل کر اپنا سایہ بنا سکا؟ میں کس حد تک کامیاب ہوا اور کس حد تک ناکام ؟ فقط یہی میری داستانِ حیات ہے۔
خدا ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔