بیگم صاحبہ، یہ وہ نام ہے جس سے وہ پہچانی جاتی تھیں۔ اہلیانِ پاکستان نے ان سے ذیادہ حسین، سٹائلش اور متحرک خاتونِ اول نہیں دیکھی تھی۔ دنیا کے حکمران خاندانوں میں ان کا ایک نام تھا، انہیں عالمی میڈیا نمایاں جگہ دیتا تھا۔ ویسے بھی اپنے ملک کے ذہین ترین شخص کی بیگم ہونا اور ان کے ہوتے اپنی ایک ذاتی پہچان بنانا کوئی آسان کام نہ تھا مگر بیگم صاحبہ نے کیا۔
آج ۲۳ اکتوبر کو انہی بیگم صاحبہ، بیگم نصرت بھٹو کا یومِ وفات ہے۔
پاکستان میں ویسے تو بہت جمہوریت کے علمبردار ہیں لیکن اگر کسی نے واقعی اس جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں تو وہ بیگم صاحبہ ہیں۔ آج جمہوریت جو اس ملک میں نظر آتی ہے اس پودے کو اپنا خون دے کر سینچا ہے بیگم صاحبہ نے۔
سونے کا نوالہ منہ میں لے کر پلنے والی نصرت بھٹو کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جب اس کے خاوند پر برا وقت آئے گا تو وہ آمر کے مقابلے پر مردانہ وار سامنے آئے گی۔ اس دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا جب بڑے بڑے جغادڑی لیڈران آمر ضیاع الباطل کے ڈر سے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے اس وقت دھان پان سی نصرت بھٹو سڑکوں پر جمہوریت کے حق میں نعرے لگا رہی تھی۔ اس دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا جب اسلام کے دعویٰ دار ضیاع الباطل نے ایک نہتی عورت کے سرپر جمہوریت کے نام لینے کی پاداش میں لاٹھیاں برسائیں۔ جس سے بہنے والا خون ان کے سر سے پاؤں تک بہادری کی ایک لکیر بنا گیا۔ وہ لکیر اس ظالم ضیاع الباطل کو تا قیامت بزدلی اور منافقت کی علامت بنا گئی۔ اور نصرت بھٹو ہمیشہ کے لیے بہادری کا استعارہ بن گئی۔ بیگم بھٹو کہلوانا آسان تھا، مگر بھٹو صاحب کی بیگم بن کے نبھانا بہت مشکل تھا، اور بیگم صاحبہ نے اپنا سب کچھ لٹا کر بیگم بھٹو ہونے کا حق ادا کر دیا۔
آسان نہیں ہے کہ کسی کا خاوند، دونوں بیٹے، اور رانی بیٹی جان سے مار دیے جائیں مگر نہ وہ خود نہ ان کے گھر کا ایک بھی شخص ظالم و آمر کے سامنے جھکے، سر کٹوا دے مگر سر جھکائے نہیں۔
آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ راہِ حق پرمرنے والے مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اور ظالم جی کر بھی نفرتوں کا نشانہ رہتے ہیں اور مر کر بھی لعنتوں کے مستحق رہتے ہیں۔
وہ یقینی طور پر آلِ رسول ص کے ان پاک ہستیوں کی ماننے والی تھی جنہوں نے دنیا کو رگِ گردن سےِ نوکِ خنجر کو شکست دے کر دکھائی۔ وہ یقینی طور پر ان لازوال ہستیوں کی پیروکار تھی جنہوں نے اپنے صبر سے ظلم کو بے نقاب کیا، اور ایسا بے نقاب کیا کہ آج ظالم کا نام گالی بن چکا ہے۔
فیض کا یہ کلام آج پڑھو تو ناز و نعم میں پلی وہی نصرت بھٹو نظروں کے آگے آ جاتی ہے جو سب آرام و آسائش چھوڑ کر اپنے ملک، اپنے عوام، جمہوریت، آزادیِ اظہار، حق و انصاف کی جنگ لڑنے پا بجولاں میدانِ عمل میں نکل آئی۔
آج بازار میں پابجولاں چلو
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو
اے مادررِ جمہوریت، اے مادرِ شہداء، اے مادرِ دخترِ مشرق، اے جیالوں کی ماں تم پر ہمارا سلام ہو، گو کہ تم آج ہمارے درمیان موجود نہیں مگر تمہارا عزم و استقلال ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، چاہے کتنا بھی ظلم ہو جائے، کتنا بھی بڑے سے بڑا آمر آ جائے ہمیں جمہوریت کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے رہنا ہے۔
یہی آپ کے لیے اس قوم کا نذرانہِ عقیدت ہو گا۔