کیا بلوچ کے حق میں بات کرنے کے لیے بلوچ ہونا ضروری ہے؟
بلوچستان سے جڑے بہت سے معاملات اس وقت توجہ کے متقاضی ہیں۔ لیکن ہمیں اس وقت ایک انتہائی اہم مسئلہ کی جانب توجہ دلانی ہے۔ اور وہ ہے ڈیرہ بگٹی بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والی نا انصافی۔
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے جو کہ قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے۔ یہاں انتہائی قیمتی قدرتی معدنیات کے وسیع زخائر ہیں۔ یہاں قدرتی گیس ہے جو پورے ملک کو فراہم کی جاتی ہے اور جس سے ناصرف گھریلو چولہا جلتا ہے بلکہ ملکی صنعت کا پہیہ بھی اسی سے گھومتا ہے۔
اس بلوچستان کا ایک ضلع ڈیرہ بگٹی بھی ہے، جو ظاہر ہے اپنے نواب، نواب اکبر خان بگٹی کی وجہ سے دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ اسی ڈیرہ بگٹی کی چار تحصیلیں ہیں۔ جن میں پیر کوہ، ڈیرہ بگٹی، سوئی وغیرہ اہم ہیں جن میں پاکستان کی چار بڑی گیس فیلڈز پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے تین کی او جی ڈی سی اور ایک کی پی پی ایل مالک ہے۔ یہاں سے وہ گیس نکلتی ہے جو پورے ملک میں اسی علاقے کی نسبت سے سوئی گیس کے نام سے جانی جاتی ہے۔
اب آتے ہیں مسئلہ کی جانب، پچھلے چار سالوں میں او جی ڈی سی نے ۵۰۰ ایگزیگٹو پوزیشنوں پر بھرتیاں کیں۔ مگر ان میں سے ایک بھی ڈیرہ بگٹی کا مقامی انجنئیر نہیں ہے۔ دنیا میں یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہےکہ نوکریوں پر پہلا حق مقامی افراد کا ہوتا ہے۔ اور پھر باہر کے لوگوں کا۔ اگر مکمل طور پر نہ بھی سہی پھر بھی ایک کوٹہ ضرور رکھا جاتامقامی افرادی قوت کے لیے، تاکہ ان کے خطے سے نکلنے والی دولت سے ا ن کے لیے ترقی اور خوشحالی کی راہیں کھلیں۔ لیکن یہاں تو معاملات ہی اور ہیں۔ حال ہی میں او جی ڈی سی نے پھر بھرتیاں کی ہیں مگر ایک بھی مقامی انجنئیر نہیں رکھا گیا۔
باہر سے آ کے لوگ وہاں کام کریں گے مگر وہاں کے مقامی بے روزگار حسرت سے انہیں دیکھیں گے، یہ سراسر بے انصافی ہے۔
کل کو وہاں کے انجنئرز اور پڑھے لکھے نوجوان علمِ احتجاج بلند کریں تو انہیں برا نہ کہیے گا۔ انہیں باغی مت کہیے گا۔ انہیں مسنگ پرسنز کی فہرست میں مت ڈالیے گا۔ کیونکہ ان کے ہاتھوں میں قلم اور اوزار کی جگہ احتجاج کا علم آپ نے اور آپکے نا انصافی پر مبنی فیصلوں نے خود دیا ہے۔
ہمارے وہ دوست جو خلیجی ریاستوں میں روزگار کےسلسلے میں مقیم ہیں وہ جانتے ہیں کہ ادھر بھی نوکری پر پہلا حق مقامی کا ہے۔ اگر وہ قابلیت پر نہیں بھی پورے اترتے تب بھی انہیں سنئیر غیر ملکیوں کے ساتھ لگوا کر تجربہ دلوایا جاتا ہےجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلی ایک دو دہائیوں میں ان ممالک نے اپنی افرادی قوت کو بھرپور ترقی دلوائی ہے۔ اب ادھر صورت حال یہ ہے کہ سرکاری کمپنیوں میں سپروائزر لیول سے اوپر کی پوسٹ پر آپکو کوئی غیر ملکی نہیں ملے گا ویسے ہی کوئی فریش ہائر غیر ملکی نہیں لیا جائے گا۔ اس طرح فیصلہ سازی اب مکمل طور پرُمقامی خود کرتے ہیں۔ یہ سب ایک پالیسی اور مستقل مزاجی کے تحت ممکن ہو پایا کہ اونٹ چرانے والے بدو آج دنیا کی بہترین کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ لیکن ہم نے بلوچ عوام کو ان کے حق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے یہ آپکے نزدیک چھوٹی چھوٹی باتیں ہوں لیکن یہی چھوٹی چھوٹی نا انصافیاں ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔
حال ہی میں ۱۶ دسمبر گزرا ہے وہاں بھی نا انصافیاں تھیں جن کا نتیجہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے پاک فوج نے بلوچ عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلیے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں سیکیورٹی صورتِ حال بہت بہتر ہوئی ہے۔ اور گوادر پورٹ کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی زور پکر رہی ہیں۔ انہیں اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ان کے اتنے سالوں کی محنت OGDCL جیسے اداروں کے عاقبت نا اندیش فیصلوں کی وجہ سے کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ ڈیرہ بگٹی کے عوام پہلے ہی نواب صاحب کا غم دلوں دبائے بیٹھے ہیں۔ انہیں محبت سے اپنائیت کا اظہار دیجیے، نہ کے دور دھکیل کر انہیں نظام سے ہی متنفر کر دیں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ فیصلہ ساز قوتیں اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس جانب راست اقدام کریں گی۔ اور ڈیرہ بگٹی کے نوجوانوں کیلیے وہاں کام کرتی کمپنیوں میں کوٹہ فکس کروائیں گی، تاکہ ان کے خطے سے نکلتی دولت سے ان کے علاقے اور گھر میں بھی خوشحالی آئے اور وہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔