آج اقبال حسن کی ۳۶ ویں برسی ہے۔ کون اقبال حسن؟ شاید نئی نسل اس نام سے بھی واقف نہ ہو۔ اور اگر واقف نہیں تو اس کا قصوروار اقبال حسن نہیں ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے دو ہزار کی دہائی میں امن کی اشا کے نام پر ملک میں بھارتی فلموں، گانوں، پروگرام، اشتہار ان کے ماڈلز کو دکھانے کی آزادی دی اور ہمارے میڈیا والے ہیں جو اس اجازت کو ملنے پر ایسے آپے سے باہر ہوئے جیسے یہ پاکستانی نہیں دشمن دیش بھارت کے میڈیا والے ہیں۔ دو سال پہلے تک یہ حالات آ گئے تھے کہ کسی اشتہار میں پاکستانی فنکار کاسٹ نہیں ہوتا تھا۔ بھارتی فنکار کو چھینک آئے تو یہ خبر مرکزی خبرنامہ میں چلتی تھی۔ فلم سے تعلق رکھنے والے چیختے رہے ہمیں صنعت کا درجہ دیں ہمارے لیے سہولیات مہیا کریں تاکہ ہم عالمی سطع کی فلمیں بنا کر ملک کا پیغام آگے پہنچا سکیں مگر یہاں بھارتی فنکاروں کے لیے ایوانِ صدر مہمان خانہ بنا رہا اور اپنے فنکار فراغت کے دن کاٹتے کاٹتے فاقوں پر آ گئے، کئی دنیاِ فانی سے کوچ کر گئی کسی کو خبر تک نہیں۔
بہرحال آج اقبال حسن کی ۳۶ ویں برسی ہے، وہ اقبال حسن جس کی ۱۹۸۱ کو یومِ عید ایک ساتھ ریلیز ہوئی فلموں شیر خان اور چن وریام نے وہ فقید المثال اور ٹرینڈ سیٹر کامیابی سمیٹی کہ جس کی مثال اس سے پہلے اور بعد میں نہیں ملی۔ فلم سسی پنوں کا خوبرو پنوں جب شیر خان بنا تو پاکستانی فلموں میں ڈاکو کے روپ کا استعارہ بن گیا، جب چن وریام کا چن سیاں بنا تو اس سے اعلی سکھ کے روپ کی کردار نگاری ہمیں کسی اور اداکار کی جانب سے دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہ وہ فلموں ہیں جن کی کاپی ہندوستان میں بھی کی گئی مگر ان فلموں میں جیسے وہ کردار نبھا گئے، کوئی دوسرا اس کے پاسے کو بھی نہ پہنچ سکا۔ اسی کی دہائی میں سلطان راہی اور مصطفٰی قریشی کے ساتھ کوئی تیسرا فنکار اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ پنجابی سینما میں کھڑا نظر آتا ہے تو وہ اقبال حسن ہی تھے۔
ان کے چاہنے والے جنہوں نے ان کے کام کو دیکھا ہے انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں۔ یہی محبتیں چاہتیں فنکاروں کا اثاثہ ہوتی ہیں۔
خدا ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔