(یکم مارچ کو تارڑ صاحب کی سالگرہ پر ان سے وابستہ کچھ یادیں، کچھ باتیں)
یہ بات ہے تب کی جب پاکستان مین نجی چینل شروع نہیں ہوئے تھے۔ ایک چینل PTV تھا جو سرکاری بھی تھا اور عوامی بھی۔ اس نے اپنی صبح کی نشریات کا آغاز کیا۔ اور پہلی نشریات کے لیے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کیا جس نے تب سے پہلے بحیثیت میزبان کوئی پروگرام نہ کیا تھا۔ لیکن شاید انتخاب کرنے والا جانتا تھا کہ آنے والے ایّام میں وہ شخص صبح کی نشریات کے لیے ایک معیار قرار پائے گا۔۔ اس شخص کے منتخب کردہ اس معیار کا نام تھا مستنصر حسین تارڑ۔ آج انہی تارڑ صاحب کی سالگرہ ہے۔ یکم مارچ ۱۹۳۹ کو پیدا ہونے والے تارڑ صاحب عمر کی ۷۸ بہاریں دیکھ چکے۔ خدا انہیں شاد و آباد رکھے۔ دل کر رہا تھا انہیں خود کال کر کے مبارکباد دیتے۔ چلیے کال نہ سہی ان کے بارے میں دلّی کیفیت تو لکھی جا سکتی ہے ناں!
تارڑ صاحب نے جب پاکستان کی تاریخ کی پہلی صبح کی نشریات شروع کیں تو دیکھتے ہی دیکھتے آپ نے گھر کے ہر فرد چاہے بچے ہوں یا بڑے سب کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ صبح ۷ بجے نشریات شروع ہوتی اور تارڑ صاحب نے چاچا جی بن کر بچوں سے گپ شپ شروع کرنی اور ساتھ ہی ان کے لیے کارٹون لگانے۔ کارٹون کے بعد بچے سکول اور بڑے ناشتہ کرتے ٹی وی کے آگے نظریں جمائے بیٹھ جاتے جن کے لیے اب تارڑ صحب خبروں کا اور ان پر تبصرے کا بندوبست کیے ہوتے تھے۔۔ جس کے ختم ہوتے ساتھ ہی وہ دفتر کے لیے روانگی اور خواتین ناشتے کروا کر ٹی وی کے سامنے جگہ سمبھالتیں جہاں تارڑ صاحب ان کے لیے ڈرامہ اور دیگر دلچسپی کے پروگرام لیے موجود ہوتے تھے۔۔ یہ پروگرام جیسے گھر کے ہر فرد کی زندگی کا حصہ بن گیے تھے۔۔ اور آج سالوں بعد ہمارے یادوں کا حسین سرمایہ ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شخصیت یک پہلو ہوتی ہے، جب کہ کچھ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ جن کی شخصیت ایک کہکشاں کی مانند ہوتی ہے جس میں مختلف ستارے ہوتے ہیں جو سب ہی جگمگ کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ خال خال ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جس میدان میں بھی جائیں اپنی مثال آپ قرار پاتے ہیں جس چیز کو ہاتھ لگائیں، وہی سونا بن جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت تارڑ صاحب کی ہے۔
اپنی اوائل عمری میں تھے کہ ہم نے تارڑ صاحب کی K2 کہانی پڑھی اور یہی وہ کتاب تھی جس نے ہمیں سفرناموں کی صنف سے روشناس کیا۔ پھر یہی نہیں ایک کے بعد ایک سفرنامہ پڑھا ان کا۔ جن میں ہر ایک دوسرے سے منفرد اور اعلٰی۔ چاہے 'اندلس میں اجنبی' بنے اپنی نشاطِ ثانیہ کو ڈھنڈھتا مسافر ہو یا 'لندن سے ماسکو تک' میں مغرب کو دریافت کرتا ایک ترقی پزیر ملک کا شہری۔ ' نکلے تیری تلاش میں' ہو یا 'منہ ول کعبے شریف میں' اپنی روحانی سفرمیں مصروف ایک سادہ لوح۔ چترال داستان، دیو سائی، جپسی، کالاش اور یہ خانہ بدوش، یورپ امریکہ، مشرق کہاں کہاں کے سفر نامے نہیں لکھے انہوں نے اور سب اس کتاب دشمن دور میں بھی ہاتھوں ہاتھ خریدے جانے والے۔۔
نیا نیا کالج داخلہ ہوا تھا کہ ان کا ایک ناول ہاتھ لگا " پیار کا پہلا شہر" جس کا اثر آج بھی دل پر قائم ہے ۔۔ آج بھی تنہائی میں پیرس کے دریائے سین کے کنارے چہل قدمی کرتی پاسکل یاد آجائے تو دل اداس ہو جاتا ہے۔۔
ڈاکٹر غالینا سنئیر پروفیسر ماسکو یونیورسٹی کہتی ہیں کہ ہفتہ کو یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں تارڑ صاحب کو پڑھایا جاتا ہے اس دن پورے ہفتہ کی سب سے ذیادہ حاضری ہوتی ہے ۔۔ ایک طالبِ علم بھی غیر حاضر نہیں ہوتا۔۔ نہ جانے کیا کشش ہے تارڑ صاحب کی تخلیقات میں۔
'پیار کا پہلا شہر' پڑھنے کے بعد ان کے لکھے ناولوں کی تلاش شروع ہوئی تو بہاؤ ہاتھ لگا جسے بقول تارڑ صاحب آپ نے دس سالوں میں لکھا اور جسے بانو قدسیہ نے اردو کے لکھے بہترین ناولوں میں سرِّ فہرست آگ کا دریا کے ہم پلہ قرار دیا اور کہا کہ صرف یہ ناول ہی کافی ہے تارڑ کا نام اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے مگر پھر 'راکھ' آیا 'خس و خاشاک' آیا 'قلعہ جنگی' آیا ۔۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک۔۔۔
پی ٹی وی کے لازوال ڈرامے جنہیں یاد ہیں وہ تارڑ صاحب کے لکھے سورج کے ساتھ ساتھ اور فریب کو کیسے بھول سکتے ہیں۔۔ بلیک اینڈ وائٹ کے دنوں میں تارڑ صاحب ڈراموں میں بحیثیتِ اداکار بھی جلوہ گر ہوئے۔ ایک تاریخی ڈرامے میں ان کا ادا کیا شہزادے کا رول، آپکی اداکاری، صداکاری اور سب سے بڑھ کر اس کردار میں ڈھلا وہ غیر ملکوتی حسن آج بھی دلوں کو مبہوت کر دیتا ہے۔۔
اب نہ وہ مارننگ شو میں روایتوں کی چاشنی میں گندھی چاچا جی سی بے ساختگی ملتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی ہمہ پہلو شخصیت جنہیں لوگ وارفتگی سے چاہتے ہوں
تارڑ صاحب ، آپ جہاں بھی رہیں شاد و آباد رہیں، آپ سے وابستہ ہماری یادیں ہمیں آپ کو کبھی بھلانے نہ دیں گی۔