1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. ہمبنٹوٹا- سری لنکا کا گوادر

ہمبنٹوٹا- سری لنکا کا گوادر

ہمبنٹوٹا، جی یہ نام ہے سری لنکا کے گوادر کا۔

آج سے ۹ سال قبل سری لنکا کو چین نے قرضہ دیا کہ آپ اپنے ساحلی شہر ہمبنٹوٹا میں بندر گاہ کو تعمیر کریں ہم اسے اپنے سمندری شاہراہِ ریشم منصوبے کیلیے استعمال کریں گے۔ اس مقصد کیلیے انہوں نے سری لنکا کو ۳۰ کڑوڑ ڈالر کے قریب قرضہ ۶ فیصد کی سالانہ اوسط پر دیا اس وقت جب کہ ورلڈ بنک ۲ فیصد پر قرضہ دے رہا تھا۔ سری لنکا نے تمام ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کو دیے۔ یوں اس قرضے کی ۸۰ فیصد رقم چینیوں کو رقم کی صورت واپس چلی گئی۔ چینیوں نے کہا یہاں ائر پورٹ بھی تعمیر ہونا چاہیے، سری لنکا نے وہ بھی ان سے قرضہ لے کر انہی کی کمپنیوں کو ٹھیکا دے کر بنا دیا۔ یوں یہ بندرگاہ ۳۳ برتھوں کے ساتھ جنوبی ایشیا کی سب سے گہری اور بڑی بندرگاہ کے روپ میں تیار ہو گئی۔

اب وقت آیا قرضے کی قسطیں چکانے کا سری لنکا جو پہلے سے ہی قرضوں میں جکڑا ہوا تھا قسطیں چکا نہ پایا۔ بندرگاہ سے ہونے والی آمدنی اتنی نہ تھی کہ سود ہی اتر پاتا۔ ساتھ میں ہوائی اڈہ شدید نقصان میں، ہفتے کے سات دن گن کے صرف پانچ فلائٹس آتیں۔

۳۰ کڑوڑ کا قرضہ بڑھتے بڑھتے سوا ۱ بلین سے بڑھ گیا۔ ۶۱ بلین ڈالر کے مقروض سری لنکا کے قرضوں میں صرف چین کا حصہ ۸ بلین ڈالر کا ہو گیا۔ اب چین نے آفر کیا یا قرضہ دو یا بندر گاہ ہمارے حوالے کرو اور مجبوراً سری لنکا کو اپنی بندر گاہ چین کے حوالے ۹۹ سال کی لیز پر کرنی پڑ گئی ہے۔

یہ چائنہ کا برِّ صغیر میں پہلا قدم ہے۔ اگر آپ نے تاریخ پڑھی ہے توہمبنٹوٹا چین کا کلکتہ ثابت ہوا جیسے انگریز تاجر بن کر آئے اور سب سے پہلے انہوں نے کلکتہ فتح کیا ویسے چین بندرگاہ تعمیر کرنے آیا اور ٹھیکیدار سے مالک بن بیٹھا۔

ایک بندرگاہ ہم بھی شوق شوق میں ان سے تعمیر کروا رہے ہیں، ہمیں بھی یہ اپنے لیے قرضہ دیکر اپنی ہی کمپنیوں سے بندر گاہ بنوا رہے ہیں۔ ہمیں بھی پانچ ارب ڈالر انہیں ہر سال قسط کی صورت اتارنے ہیں جو بظاہر ناممکنات میں سے ہے۔

پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور بحیرہِ عرب سے گہری ضرور ہے مگر ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں ہمالیہ کی بلندی سے کوئی آ کر بحیرہِ عرب کی گہرائیوں میں غرق کر دے۔

اس لیے یہ وقت ہے ہم وقت سے پہلے پیش بندی کر لیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے پاس بھی ایک اور سری لنکا بن کر ہمبنٹوٹا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔

کاش ہمارا میڈیا سیاستدانوں کی آپسی لڑائیاں چھوڑ کر اس اہم قومی مسئلے کی طرف نظر اٹھائے۔ بعد میں ہاتھ ملنے سے بہتر ہے پہلے اس بابت حکمتِ عملی ترتیب دے دی جائے۔