میں نے حسین نقی صاحب کا نام تو سن رکھا تھا مگر ذیادہ تفصیل سے ان کی ذات سے واقف نہ تھا۔ کل سوشل میڈیا پر اپنے مولا جٹ سٹائل چیف جسٹس صاحب کی دھواں دار گرج کے بارے میں پڑھا کہ انہوں نے اپنی عدالت میں ایک بزرگ صحافی حسین نقی کو ان کی اوقات یاد دلا دی، ایسی کھری کھری سنائیں کہ بیچارے بزرگ کو کہنا پڑ گیا کچھ لحاظ کیجیے میں آپ سے بیس برس بڑا ہوں۔ مگر کہاں جی، چیف جسٹس نے حکم صادر کیا کھڑے ہو جاؤ اور معافی مانگو تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ میرے ساتھی جسٹس عامر رضا سے بدتمیزی (بحث) کرو۔ اس سفید پوش بزرگ نے جس نے اصول کی خاطر اپنے وقت کے آمروں سے ٹکر لی تھی یہاں بھی اپنی خاندانی نجابت دکھاتے ہوئے اداروں کا احترام کیا اور عدالت کے حکم پر اس سے معافی مانگ لی۔
یہ خبر آنی تھی کہ سوشل میڈیا پر جیسے طوفان برپا ہو گیا۔ وہ پرانے صحافی جو حسین نقی صاحب سے واقف تھے انہوں نے اس پر ببانگِ دہل لکھا وہ قلم جو اب تک قانون کے ڈر سے خاموش تھے انہوں نے سب ڈر خوف بلائے طاق رکھتے ہوئے محترم نقی صاحب کے حق میں آواز بلند کی۔ یہ صورتِ حال بہت عجیب تھی۔
ایسی صورتِ حال میں جب کہ علی جعفر زیدی صاحب، حیدر جاوید سید صاحب، خاپوئیگم صاحب، عامر حسینی صاحب نے حسین نقی صاحب کے حق میں آواز اٹھائی تو ہماری نسل سے بھی اس طرح جناب نقی صاحب کا تعارف ہوا۔
میں نے یہ پوری تمہید جو باندھی ہے اس کا ایک مقصد ایک سوال پوچھنا ہے اور وہ یہ کہ۔۔
ہمارا آج کا میڈیا آزاد تو ہے مگر کیا ذمہ دار بھی ہے؟
کیا میڈیا کا یہ کام نہیں کہ وہ ان صحافیوں کو ٹی وی پر دعوت دیں جو قوم کو صحیح، غلط کی تمیز سکھا سکیں، وہ جنہوں نے اصول کی جنگ میں کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ وہ جنہوں نے بے روزگاری سہی، کوڑے سہے مگر قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں با اصول صحافیوں پر کیسے میڈیا پر پابندی ہے اور بندر نچانے والے اینکر بنے ہوئے ہیں سینئر تجزیہ کار بنے ہر موضوع پر منہ سے جھاگ ابلتے بھاشن دے رہے ہوتے ہیں۔
جہاں اوریا مقبول جان، انصار عباسی جیسوں کو قوم کو داعشی کتوں کی حمایت میں لابنگ کرنے کو پورا پورا گھنٹہ دیا جاتا ہے۔ جہاں بقول خود “گدھے کے بچے” ہارون رشید جیسوں اور گالم گلوچ بکتے حسن نثار کو پگڑیاں اچھالنے کو بلایا جاتا ہے، جہاں نالائق جرنیل امجد شعیب سینئر دفاعی تجزیہ نگار بنا ٹی وی پر بیٹھ کر لشکر جھنگوی کو فوج میں بھرتی کرنے کی تجویز دیتا ہے۔ وہاں اپنی ذات میں ایک ادارہ جناب حسین نقی صاحب کے نام سے بھی میری نسل واقف نہیں۔ علی جعفر زیدی صاحب “باہر جنگل اندر آگ” لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں۔ حیدر جاوید سید صاحب جب آپکو شاہی قلعے کی جیل میں بیتی اپنی قلبی روداد سے روشناس کرتے ہیں تو آپ دانتوں تلے زبان دے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی جب ہمیں پڑھائی جانے والی تاریخ کے جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہیں تو آپ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ عامر حسینی جب کھل کے ملک پر مسلط کی جا رہی انتہا پسندی کے خلاف لکھتے ہیں تو آپ سوچتے ہیں آخر ان حضرات کو جوابی بیانیہ پیش کرنے کو میڈیا پر کیوں نہیں بلایا جاتا۔ خرم زکی سپاہِ صحابہِ، یزید کی یزیدیت کے خلاف بات کرنے لگتے ہیں تو ان پر ٹی وی میں بین لگ جاتا ہے۔
کیوں ہماری نسل پر رنگ برنگے تجزیہ نگار نما کامیڈین۔ ہارے ہوئے فارغ سابق جرنیل۔ قلم فروش صحافی مسلط کیے جا رہے ہیں۔
ہم پڑھنا چاہتے ہیں ہم سچ کی متلاشی نوجوان نسل ہیں چاہتے ہیں ہمیں ہمارے بزرگ آ کر راستہ دکھائیں۔ کیوں ہمیں ان کے فیض سے دور رکھا جا رہا ہے؟
یہ میرا سوال ہے اس ملک کی اشرافیہ سے چاہے وہ خاکی ہو بابو ہو یا میڈیا کی ہو۔
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے