جنید جمشید جب کہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے کی شخصیت کو ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں.. ایک وہ جو وہ اوائل عمری میں تھا.. ملک کا ٹاپ بینڈ سنگر تھا ...لاجواب ملی نغمے گائے، اس کا گایا دل دل پاکستان شاید ملک کے بہترین ترانوں میں سے ایک ہے... پھر گانوں کی طرف آئیے تو حسین ترین رومانوی نغمے گائے.. سانولی سلونی اور گورے رنگ کا زمانہ آج بھی جس کے ساتھ ہمارے لڑکپن کی بے شمار یادیں وابستہ ہیں...
دوسرا دور وہ جب وہ ایک فرقہ کی طرف مائل ہو کر اس فرقہ کی تبلیغی جماعت کے ساتھ منسلک ہوا ... یہاں آ کر وہ متنازعہ ہو گیا... ایک طرف تو وہ باتیں بہت اچھی کرتا تھا حمد و نعت و منقبت بھی پڑھتا تھا مگر ساتھ ہی میں جب نعت اور منقبت پڑھنے والوں کو قتل کیا جاتا تھا تو وہ کبھی ان مقتولوں کے لیے ان کے قاتل اپنے فرقہ بند بھائی طالبانوں کے خلاف کھڑا نہ ہوا. بلکہ اس نے ہمیشہ قاتلوں کی مذمت کی بجائے اس قتلِ عام کو اس قوم کے گناہوں کی سزا قرار دیا.. جس سے مجرم کو برا کہنے کا موقع ہاتھ سے چلا گیا.. اور اس طرح اس نے مجرموں کی شناخت چھپائی... اگر اس کی دلیل مان لی جائے تو کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے قتلِ عام کی وجہ ان اقوام کے اپنے گناہ ہوئے بھارت اور اسرائیل کو برا نہیں کہنا چاہیے...
اسی جنید جمشید نے ملا بننے کے بعد مذہب کی غلط شبیہ پیش کی جس کے مطابق ڈرائیونگ کرنے والی اور جاب کرنے والی خواتین کردار باختہ ہوتی ہیں... اسی جنید جمشید کے ہاں ایک طرف سخت پردہ اور اسلامی احکام ملتے ہیں وہیں اس کا برینڈ ہے جو بے انتہا منافع پر کپڑے بیچتا ہے اور جہاں خواتین کا جدید فیشن کا ماڈرن لباس ملتا ہے .. وہی لباس جس کے خلاف وہ ہر تبلیغی نشست میں جہنم کی وعیدیں دیتا تھا... مگر خود اسی لباس کا فروخت کنددہ تھا...
پھر اس پر توہینِ رسالت کا الزام لگا مگر معافی مانگنے پر اسے معاف کر دیا گیا... مگر جب ایسے الزام دوسروں پر لگے جنہوں نے توہین کی بھی نہیں تھی تو جنید ان کے حق میں کھڑا نہیں ہوا بلکہ الزام لگانے والوں کے حلقے میں نظر آیا
افسوس ہے کہ اسے ہی قول اور فعل میں تضاد کہتے ہیں ...
بہرحال جو بھی ہو ہمیں ہمارے بچپن کا جنید یاد آتا ہے جو گانے گاتا تھا ہنستا مسکراتا تھا... جس نے ہماری زندگی کے بے شمار لمحات اپنی آواز سے حسین بنائے .. خدا اس کی مغفرت فرمائے...