ہم میں سے جنہوں نے کھر صاحب کا سیاسی سفر دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں نے ایک زمانے کو متاثر کیا تھا۔ زمانہ کیا بھٹو صاحب جیسی شاندار اور کرشماتی شخصیت نے پنجاب جیسا سب سے بڑا صوبہ ان کے حوالے کر دیا۔ اور کھر نے بھی اس فیصلہ کی لاج رکھتے ہوئے شیرِ پنجاب کا خطاب پا کر دکھایا۔ پہلا اور آخری حقیقی شیرِ پنجاب۔ اس کے بعد ہر کوئی ان جیسا ہی بننے کی کوشش کرتا نظر آیا۔ ، لیکن اصل اصل ہوتی ہے ان جیسا دوسرا کوئی نہ بن سکا۔
ایسا عروج نصیب والوں کو میسر ہوتا ہے۔ لوگ ایسے عروج کے بعد اپنا آپ اس مقام پر رکھتے ہیں کہ کچھ ہو جائے عزت ہر سوداُنہیں کرنا۔ لیکن یہ وہ مقام تھا جہاں کھر صاحب کردار کا مظاہرہ نہ کر پائے۔
اسی کی دہائی میں انہوں نے خود بھٹو صاحب بننے کی کوشش کی۔ نوے کی دہائی میں انہیں شہید رانی میں بھٹو صاحب دکھے، دو ہزار کی دہائی میں پہلے وہ نوازشریف کے ہم سفر بننے کی کوشش کرتے نظر آئے اور ان کے ہمراہ جہاز کی سیڑھیوں پر کھڑا ہو کر انہیں وقت کا بھٹو قرار دیا۔ جب ادھر بات نہیں بنی تو پیر پگاڑا صاحب میں انہیں وہی بھٹو صاحب کا عکس نظر آیا۔ دو ہزار دس کی دہائی میں جب قادری صاحب کے نام کا شور اٹھا تو ان کے ہمرکاب ہو گئے اور ان میں انہیں بھٹو دکھا، اب دو سال نہیں گزرے انہیں بھٹو کی وہی شبیہ عمران خان میں دکھ رہی ہے۔
یہ ایسا تو نہیں کہ عشق میں یہ حال ہوا کہ جدھر دیکھوں تو ہی تو نظر آئے۔ یا کھر صاحب اپنے مفاد پرستی پر مبنی فیصلوں کی توجیہ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟
اب حالت یہ ہے کہ ایک وقت کے شیرِ پنجاب، بھٹو کے لاڈلے، بی بی کے انکل کو ان کے اپنے حلقے کے عوام قبول نہیں کر رہے اور وہ ضلعی سطح کے سیاستدانوں سے ایک قومی اسمبلی کی سیٹ پر پارٹی ٹکٹ لینے کیلیے مقابلہ کر رہے ہیں۔
کھر صاحب آپکی عمر اب اپنا مستقبل بنانے کی نہیں۔ آپکو تاریخ میں جو مقام اور عروج مل چکا ویسا دوبارہ نہیں مل سکتا۔ آپ کی عمر میں آ کر سیاستدان اپنی اگلی نسل کو سیاسی ورثہ منتقل کرتے ہیں۔ اپنے تجربے سے قوم کو مستفید کرتے ہیں۔ اور آپ اپنے سیاسی ساتھیوں کے پوتے نواسوں سے مقابلہ کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ آپکے استاد بھٹو آپکو عالمِ ارواح سے دیکھتے ہونگے توافسوس کرتے ہونگے، کہ آپکو کیا بنا کر گئے تھے اور آپ کیا بن گئے۔
کیا عروج تھا کیا زوال ہے۔