1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. لاہور، میری نیم لیس پیک

لاہور، میری نیم لیس پیک

ملک سے باہر رہنے والے احباب کا سب سے بڑا رومانس اپنے دیس، اپنی مٹی کا رومانس ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ہمارے لیے دنیا کے کسی بھی خطّے سے ذیادہ کشش اپنے ملک کی زمین کے لیے ہوتی ہے۔ ۔ کیا کیا تصورات ہوتے ہیں جو ہم اپنے بچّوں کے زہنوں میں ڈالتے ہیں۔ ۔ ۔

بیٹا لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا ہے

یہ کالجوں کے شہر کے نام سے مشہور رہا ہے

یہاں کے لوگ زندہ دل ہوتے ہیں

جس نے لاہور نہیں دیکھا گویا عالمِ وجود میں ہی نہیں آیا

اور پھر ہم لاہور ائر پورٹ پر اترتے ہیں اور آگے سامان لیتے ہوئے بجلی چلی جاتی ہے اور ائرپورٹ میں اندھیرا گھپ۔ ۔ باہر نکلتے ہیں سڑکیں ایسی ٹوٹی پھوٹی جیسے کسی گاؤں یا قصبے کی بوسیدہ سڑکیں بارش کے بعد تالاب کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ صبح جب گاڑی نکال کر کہیں جانا پڑے تو سڑکوں پر انسانوں کا گاڑیوں کا ایک اژدہام ہے۔ ۔ وہ راستے جو آج سے دس برس قبل سکون سے آدھے گھنٹے میں تہ ہوتے تھے اب گھنٹہ لیتے ہیں اور پہنچتے ہہنچتے انسان تھکاوٹ سے چور ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔

آبادی کا دیو منہ کھولے اس ملک کے تمام وسائل ہڑپ کر جانے کو تیار کھڑا ہے۔ ٹریفک اشاروں پر پنسل پین بیچتے ہڑھے لکھے نوجوان یہاں بےلگام ہوتی بےروزگاری کا پتہ دے رہے ہیں۔ ۔ ۔ اتنے میں کسی ریسٹورنٹ جانے کا اتفاق ہو تو وہاں بے حد و حساب مہنگا کھانا اور اس کے باوجود بیٹھنے کو سیٹ نہیں کیونکہ تمام سیٹیں بکڈ ہیں۔ ۔ ۔ یہیں سے معاشرے میں بڑھتے معاشی تفاوت اور بڑھتی طبقاتی تقسیم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ۔

یہ سب دیکھ کے پاکستان کے باہر سے آنے والے احباب کی اولاد سوال طلب نظروں سے انہیں دیکھتی ہے۔ ۔ ۔

پاپا کیا یہی ہے ہمارا پاکستان، یہی ہے ہمارا شہر جس کی مٹی کی خوشبو کا ذکر کرتے آپکی آنکھیں نمناک ہو جاتی تھیں۔ ۔ ۔

پاپا آپ تو کہتے تھے یہ اقبال کا دیس ہے، آپ تو کہتے تھے یہاں پاک ٹی ہاؤس تھا، یہاں ٹھنڈی سڑک تھی جس کے کنارے سرِّ شام لوگ چہل قدمی کرتے تھے۔ ۔ یہاں اندرون شہر ہے جو لاہور کی تہذیب کا مرکز تھا، پاپا وہاں کے باہر سرکلر روڈ پر ٹریفک کا وہ بے ہنگم نظام ہے وہ فضائی آلودگی ہے جہاں سانس لینا دوبھر ہے، وہ شور ہے کہ کان پھٹنے کو آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

پاپا آپ تو کہتے تھے یہاں کے لوگ زندہ دل ہیں ان کے دل بہت بڑے ہیں، پاپا یہاں تو لوگ ایک دوجے کو راستہ تک نہیں دیتے چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے کے گریبانوں تک پہنچ رہے ہیں۔ ۔ ۔

پاپا کیا یہی لاہور ہے جس کے قصے آپ سناتے تھے؟ آپ نے ہمیں ہیر رانجھا فلم دکھائی اور بتایا کہ یہ خوبصورت پنجابی ثقافت ہے یہاں گاؤں ہیں ہریالی ہے کھلکھلاتے پھولوں جیسے خوشگوار اور روشن چہرے ہیں مگر ہمیں تو لاہور سے باہر کہیں وہ باغات وہ لہلہاتی فصلیں نہیں دکھیں، جہاں بھی دیکھا گھر ہی گھر ہیں جیسے ماچس کی ڈبیاں رکھی یوں اور جو خالی زمین دیکھی وہاں نئی ہاؤسنگ سوسائٹی کا بورڈ لگا ہے؟

پاپا آپ نے کہا تھا پنجاب اتنا اناج پیدا کرتا تھا کہ پورے ہندوستاں کو اناج یہاں سے جاتا تھا پھر یہاں لوگوں کو ہم نے رمضان میں فری اناج کے لیے آپس میں دست و گریباں کیوں دیکھا؟

یہاں ہر طرف کوڑے کے ڈھیر ہیں کیا یہ وہی مٹی ہے جس کی سوندھی سوندھی خوشبو آپکو پردیس میں بھی مسحور کر دیتی تھی؟

پاپا سنا ہے کسی زمانے میں یہاں بایر کے لوگ آتے تھے یہاں کی خوبصورتی، یہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی اور یہاں کے تہواروں کا زکر کرتے تھے۔ ۔ مگر ہم جب سے ہیں ہم نے ایک بھی آدمی باہر کا نہیں دیکھا۔ ۔ جب کہ ہم جہاں سے آئے ہیں وہاں دس فیصدی لوکل باقی سب باہر کے ہوتے ہیں۔ ۔ یہاں باہر سے لوگ کیوں نہیں آتے؟

پاپا آپ نے کہا تھا یہاں کے پہاڑ دنیا کہ حسین ترین سیاحی مقام ہیں لیکن ہم نے پتہ کیا وہاں کوئی بھی ہوائی سروس نہیں ہے اور جانے کیلیے سڑکوں کے حالات انتہائی ناقص۔ ۔ ۔ یہاں ٹورسٹ کے لیے سہولتیں کیوں نہیں۔ ہندوستان صرف ٹورازم کے ذریعے پاکستان کی کل آمدن سے ذیادہ کماتا ہے پھر ہم کیوں نہیں؟

آپ نے کہا تھا لاہور میں اقبال کا مقبرہ ہے اقبال شاعرِ مشرق ہیں کئی ملکوں میں آپکے فلسفے و کلام ہر کام ہو رہا ہے وہ کئی ملکوں کے قومی شاعر ہیں۔ ۔ پاپا پھر یہاں ان کے مزار پر روز محفلِ اقبال کیوں منعقد نہیں ہورہی؟ ہم اقبال کا کلام سننا چاہتے ہیں۔ ۔ ان پر ڈرامے سٹیج دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ یہان مزار اتنا اداس اور سنسان کیوں ہے؟

ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے پاس نہیں۔ ۔ ۔ یہ وہ لاہور نہیں جس کی تصویر ہم نے دل میں بسائی ہوئی تھی۔ ۔ اور جس کی کہانیاں ہم اپنے بچوں کو سناتے رہے اور جس کی محبت ہم ایک امانت سمجھ کے بچوں تک منتقل کرتے رہے۔ ۔

پاکستان کے شمال میں ایک پہاڑی چوٹی ہے جس کا نام نیم لیس پیک ہے یعنی nameless peak اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کہ کوئی نام اس کی خوبصورتی کا اظہار اس طرح نہیں کر سکتا جتنی یہ حسین ہے۔ ۔ ۔ مستنصر حسین تارڑ اپنے سفرنامے K2 کہانی میں رقمطراز ہیں کہ وہ K2 کے سفر کے دوران ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے والے تھے جس کے عقب پر نیم لیس پیک تھی مگر وہ وہیں سے واپس لوٹ آئے کہ اگر دیکھ لیا اور وہ اتنی حسین نہ ہوئی جتنی ہمارے دل میں ہے تو ہمارا رومانس ٹوٹ جائے گا۔ ۔ ۔

ہم پاکستانیوں کو بھی اور کچھ نہیں صرف اپنے اس رومانس کے ٹوٹنے کا دکھ ہوتا ہے، وہ رومانس جو انہیں اپنے اس محبون وطن اپنی مٹی کے ساتھ ہوتا ہے اور جسے وہ اپنی اگلی نئی نسل کو منتقل کرنے وطن میں آتے ہیں، اور وہ دکھ بیان نہیں کیا جا سکتا صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اسے صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو منزل کہ تلاش میں سات سمندر پار آئے اور آگے سے اس کی منزلِ مراد اس سے چھن جائے۔