آج بحیثیتِ پاکستانی میرا سر شرم سے جھک گیا ہے۔۔۔ اتنا ظلم ۔۔ اتنی بربریت۔۔۔
ایک طالب علم پر پہلے توہین کا الزام لگایا پھر اس پر دس فائر کیے پھر اس کی لاش کی انتہا درجے کی بے حرمتی کی۔۔ اس کی لاش کو برہنہ کر کے اس کو پتھروں سے کچلا۔۔۔ اور یہ سب نعرہِ تکبیر کی آوازوں تلے؟
اب کیا یہ بھی ہنود و یہود و نصارٰی کی سازش ہے؟ پاکستان میں کسی کو بھی مارنے کے لیے توہین آزمودہ اور آسان ترین ہتھیار بن چکا ہے۔۔۔
لشکری تکفری جنگجؤں کو یونیورسٹیوں میں اسلامیات کے ڈیپارٹمنٹ اور جامع مسجدوں میں گھسانے، یونیورسٹیوں کو جمیعتی درندوں کے حوالے کرنے کے نتائج اپنی بھیانک ترین شکل مین سامنے آ رہے ہیں ۔۔۔
اب اس درندگی کا اگلا نتیجہ پاکستانی طالبِ علموں پر بیرونی یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہونے کی شکل میں نکلے گا۔۔۔
آج میرے پاس کوئی ایسا حوالہ نہیں کہ میں اپنی قوم کے حق میں دے سکوں ۔۔۔ پر امن زندہ دل شہریوں کا پاکستان ختم ہو چکا۔۔ اب جو ہے وہ درندوں کا پاکستان ہے اور اس میں رہنا ہے تو ایسے رہو جیسے کانٹوں کے درمیان اپنا لباس سمیٹ کر چلا جاتا ہے۔۔۔۔
نا جانے کس ارمانوں سے ماں باپ نے اپنا بیٹا پال پوس کے یونیورسٹی بھیجا ہو گا جہاں سے آج وہ برہنہ کچلی ہوئی لاش وصول کریں گے۔
میرے ہی شہر میں میری نسل لوٹنے والو
پتہ ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے؟؟
اتنا ظلم اتنی بربریت، بحیثیت پاکستانی آج مجھے اپنے تعارف پر شرمندگی ہے۔۔۔ ہم ایک مردہ قوم کے فرد ہیں جن کے آس پاس روز ایسے واقعات ہوتے ہیں اور جن کے لیے یہ صرف ایک خبر ہوتی ہے اگلے روز بھلا دی جانے والی خبر۔۔۔
امرتا پریتم نے آج سے ۷۰ سال پیشتر اس سرزمین پر ہوتی انسانیت کی تذلیل پر کہا تھا۔ وہی بات آج مشعال خان جیسے اس دھرتی کے بے گناہ معصوم پاکستانیوں کے بارے میں ہے جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔ جن کی مائیں اپنے جوان بیٹوں کی لاشون پر بین کرتی خود زندہ لاش نظر آتی ہیں اور جن کے بوڑھے باپ اپنے جوان بیٹے کا لاشا نہیں اپنی امنگوں، اور زندگی بھر کا حاصل قبر میں اتارنے جاتے ہیں۔۔۔ جن کی بہنیں اپنے بھائی کی لاش پر فدا ہوتی کہتی ہیں کاش ہم مر جاتیں بھائی تم بچ جاتے ۔۔۔
اور وہ آواز آج بھی وہی صدا لگا رہی ہے۔۔۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کہ توں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا اے زہر ملا
تے اونہاں پانیاں دھرت نوں دتا زہر پلا
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں ، وچ مزاراں رون
اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور