ہماری نسل کو اس بات پر ہمیشہ ناز رہے گا کہ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو ان دنوں میں ٹیلی ویژن ہمارے لیے ایک درس گاہ کے طور پر کام کرتا تھا۔ جہاں ایک طرف ضیاء محی الدین، ضیاء محی الدین شو کرتے تھے، وہیں دوسری طرف افتخار عارف، عبیداللہ بیگ اور قریش پور جیسے صاحبان طرز کسوٹی کھیلتے تھے، ایک طرف اگر طارق عزیز نیلام گھر سجاتے تھے تو دوسری طرف اشفاق صاحب اپنے ڈراموں اور بعد ازاں اپنے زاویہ میں ایک نسل کو متاثر کرتے دکھائی دیتے تھے۔ مزاح کے اوقات میں اگر پنجابی زبان میں ایک طرف دلدار پرویز بھٹی جیسے یکتاِ روزگار شخصیت میلہ لگاتے تھے تو وہیں اردو میں معین اختر، معین اختر شو میں قہقہوں کا سامان سجائے ملتے تھے۔
آج ان اساتذہِ فن سے سجی کہکشاں میں سے ایک درخشاں ستارے قریش پور مرحوم کی چوتھی برسی ہے۔ خدا انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
پاکستان کے ہر خطے کے باسیوں کی مادری زبان اردو نہیں مگر قریش پور اور عبید اللہ بیگ کے منہ سے اردو سننا اتنا اچھا لگتا تھا کہ لوگوں کو اس اردو سے عشق ہو جاتا جس میں یہ خوبصورت شخصیات اظہارِ رائے کرتی تھیں۔
مرحوم قریش پور نہ صرف یہ کہ شستہ اور خوبصورت اردو نہایت نستعلیق لہجہ میں بولتے تھے بلکہ اپنے آپ میں علم کا سمندر موجزن رکھتے تھے۔ کسوٹی پروگرام کے دوران ہوتے سوالات اور ان کے جوابات سن کر نہ صرف یہ کہ پروگرام دیکھنے والوں کے علم میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ مطالعہ کا شوق اور خوبصورت انداز میں اظہارِ خیال کا جزبہ پیدا ہوتا تھا۔
اب ماحول بدل چکا ہے۔ کمزشل ازم آ چکا ہے۔ اب ان اساتذہ کے مقام و مرتبہ کی ایک بھی شخصیت میڈیا پر نظر نہیں آتی۔
سوچتا ہوں کن لوگوں کو دیکھ کر نئی نسل جوان ہو رہی ہے۔ یہ زبوں حالی بہرحال اس دور اور ہماری نوجوان نسل کے لیے ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔
خدا قریش پور کو کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔ آپ ہماری بچپن کی حسین یادوں میں سے ایک حسین یاد ہیں۔