(۱۴ اگست، یومِ آزادی کے تناظر میں لکھی تحریر)
میرے نانا کا تعلق تقسیم سے قبل ہندوستان سے تھا، وہ وقتِ تقسیم دیگر مسلمانوں کی طرح ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ وہ اکثر ہمارے سامنے اپنے آبائی گھر، آبائی شہر کی باتیں کرتے تھے، انہیں وہ زمین جہاں وہ پیدا ہوئے جہاں ان کا بچپن گزرا، جس جگہ سے وابستہ ان کی بہت سی یادیں تھیں بہت یاد آتی تھی، قائدِ اعظم کے وہ عاشق تھے، انہیں آئیڈیلائز کرتے تھے اور ان کے بتائے ہوئے اصولوں اتحاد، یقین، نظم و ضبط اور پابندیِ وقت پر اپنی زندگی بسر کی۔
وہ بتاتے تھے کہ قائد کا تقسیم کے حوالے سے نظریہ بہت واضح تھا وہ ہندوستان اور پاکستان کا رشتہ امریکہ اور کینیڈا جیسا چاہتے تھے جہاں دونوں ممالک کے شہری جب چاہیں ایک دوسرے کے ہاں آ جا سکیں، آپ نے اپنے خود کا بمبئے کا گھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی نہیں چھوڑا بلکہ کہا کہ چھٹیاں گزارنے یہاں آیا کروں گا، گو کہ زندگی نے مہلت نہ دی مگر وہ آنے والی نسلوں کو لائحہِ عمل دے گئے۔
نانا ابو کو اپنا گاؤں بہت یاد آتا تھا، وہ عموماً وہاں کی باتیں کرتے تھے، کرتے بھی کیوں نہ وہاں ان کی پشتیں مدفون تھیں، نانا ابو اس جگہ کو یاد کرتے کرتے دنیاِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ شاید ان کی بہت خواہش تھی کہ وہ ایک مرتبہ دوبارہ اپنے بڑوں کی زمین دیکھ سکیں، شاید ایسا ہو پاتا تو ان کے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہوتا لیکن شاید سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اسی لیے وہ دوبارا اس سرزمین کو نہ دیکھ سکے۔
مصروفیّت کی بنا پر بیرونِ ملک ہمارا سفر رہتا ہے۔ وہاں دوسرے ممالک کے شہریوں کے علاوہ ہندوستان کے شہریوں سے بھی ملاقات رہتی ہے۔ ان سے ملاقات میں ایک سوال اس شہر کے بارے میں ضرور ہوتا ہےکہ کیا آپ نے وہ شہر دیکھا ہے؟ یک دو بارگی تو اس شہر کے باسی سے ملاقات بھی ہو گئی، اس سے بات کرتے وہی لہجہ سننے کو ملا جو کبھی نانا سے سننے کو ملتا تھا۔ عجب اپنا پن لگا۔ جب اسے پتہ چلا کہ ہمارے بڑے اس کے شہر کے باسی تھے تو اس کی آنکھوں کی چمک ہی الگ تھی۔ دونوں طرف سوال ایک سے تھے۔ ہم نے پوچھا وہ شہر اب کیسا ہے؟ وہاں کے لوگ اب کیسے ہیں؟ کیا وہ لوگ اپنے پرانے باسیوں کو یاد کرتے ہیں؟ کیا وہاں کے پرانے باسیوں کی باقیات ابھی بھی موجود ہے؟ ویسے ہی اس کے سوال کہ اس گاؤں سے جانے والے اب کیسے ہیں، وہ اپنے بڑوں کے دیس کو یاد کرتے ہیں؟ انہیں ہماری اپنے پرانے یار دوستوں کی یاد آتی ہے؟ عجب اپنائیت اور تڑپ تھی اس وقت دونوں طرف۔
بہرحال نانا ابو تو اس خواہش کو دل میں بسائے چلے گئے، ان کی طرح وہ نسل جو وہاں پیدا ہوئی جس کی یادیں ان گلی محلوں سے وابستہ ہیں دن بہ دن سپردِ خاک ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ان میں سے کسی کا دل بھی چاہے کہ مرنے سے قبل ایک مرتبہ اپنے بڑوں کی قبریں، ان کے آثار جا کر دیکھ آئیں، وہ پرانے گلی محلے جہاں ان کا بچپن گزرا دیکھ آئیں، تو وہ نا ممکنات سے ہے کیونکہ ان دونوں ملکوں کے شپریوں کے لیے ویزا لینا اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ ویزے کی شرائط پار کرتے کرتے انسان پار ہو جاتا ہے وہ شرائط پوری نہیں ہو پاتیں۔
آج کیا آزادی کے ۷۰ سال بعد ہم اپنے ان بزرگوں کو یہ تحفہ بھی نہیں دے سکت کہ ان کے لیے بارڈر کھول دی تاکہ وہ آئیں اور مرنے سے پہلے ایک بار اہنے شہر دیکھ سکیں، وہاں کے لوگوں سے مل سکیں، اسی لہجے میں بات کر سکیں جو لہجہ ۷۰ سالوں میں بھی نہیں بدلا، شاید ان بزرگوں کے لیے اس سے قیمتی تحفہ اور کوئی نہ ہو۔
یاد رکھیے دن بہ دن وہ نسل ختم ہوتی جا رہی ہے جن کی یادیں ایک دوسرے کی سرزمین سے وابستہ ہیں۔ ان کے لیے ابھی بھی سرحد پار کے لیے محبت ہے۔ اور یہی وہ کچا بندھن ہے جس سے یہ دونوں ملک بندھے ہوئے ہیں۔ جب یہ رشتہ بھی ٹوٹ جائے گا تو پھر ان دونوں ممالک کے درمیان خلیج اتنی گہری اور وسیع ہو جائے گی جو دکھنے مین تو واہگہ اور اٹاری بارڈر کے درمیان زیرو پوائنٹ پر قائم پانچ فٹ کی لگے گی مگر جسے پار کرنے کو شاید صدیاں درکار ہوں گی۔