1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. تلقین شاہ کی یاد میں

تلقین شاہ کی یاد میں

آج اشفاق احمد صاحب کا یومِ وفات ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے نوّے کی دہائی تھی یہ ٹی وی پر کمرشل ازم کی یلغار سے پہلے کا دور ہے تب ہمارے سرکاری ٹی وی چینل PTV پر ایک ڈرامہ آیا تھا 'من چلے کا سودا' اشفاق صاحب کا لکھا ہوا، یہ میرے ہوش میں شاید اشفاق صاحب سے پہلا تعارف تھا۔ ڈرامہ تھا کہ لا جواب، دیکھنے والے کو اپنے سحر میں ایسے گرفتار کر لیتا تھا کہ پلک جھپکنے کو دل نہیں کرتا تھا، تصوف کی ایک الگ انداز میں پہچان کروائی آپ نے۔ جس میں انسان کو اپنے من کو مار کر اس کے اندر جھانکنے کا سبق دیا اور بتایا کہ انکساری اور خدا کے بندوں کی خدمت ہی انسان کو خدا سے قرب دلاتی ہے۔ اس ڈرامے کی منظر نگاری، مکالمے، ہدایتکاری اور اداکاری سب بے مثال تھے۔

'من چلےکا سودا' کے بعد اشفاق صاحب کے بارے میں تجسس ہوا، والدین سے ہوچھا تو انہوں نے اشفاق صاحب کا ایک اور ہی تعارف کروایا جو کہ ان کے نزدیک اشفاق صاحب کی پہچان تھا اور وہ تھا ریڈیو کے زمانے کے 'تلقین شاہ' کا امر کردار، جس کردار کو اشفاق صاحب لکھتے تھے اور خود ہی ریڈیو میں اس پر صداکاری کرتے تھے، وہ کردار اس نسل کے ذہنوں اور دلوں میں انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔

ابھی آپ کے انہی معارف پر محوِ فکر تھا کہ ٹی وی ہر اشفاق صاحب کا پروگرام 'زاویہ' آنا شروع ہوا، جو کہ ٹی وی کے چند بہترین تربیتی پروگرامز میں سے ایک پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے ذریعے اشفاق صاحب نے نئی نسل سے گزر جانے والی نسلوں کا تعارف کروایا۔ وہ جو ایک جنریشن گیپ کہا جاتا ہے آپ نے اس کو کم کیا۔ نئی نسل جو کہ ڈیجیٹل دور میں داخل ہو رہی تھی اسے اپنے دادا پردادا کے سادہ رہن سہن کا نہیں پتہ تھا۔ اس نسل کو نہیں اندازہ تھا کہ جب تمام خاندان ایک بڑے مکان میں ایک ساتھ رہتے تھے اور شام کو مکان کے صحن مین پانی سے چھڑکاؤ کر کے سب گھر والے چارپائیاں ڈال کے بیٹھتے اور گپ شپ لگاتے تھے جب کہ بچے صحن کے اطراف کھیل کود رہے ہوتے تھے تو وہ کتنا حسین اورسادہ وقت تھا۔

نئی نسل کو بتایا کہ کسی زمانے میں مساجد میں فرقہ وارانہ منافرت لیے مدرسے کے سند یافتہ مولوی قبضہ جما کر نہیں بیٹھے ہوتے تھے بلکہ گاؤں کے نیک اور سادہ لوح بزرگ نماز کی امامت اور وقتِ فجر اور عصر گاؤں کے بچوں کو بلا معاوضہ قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ جو سب کے 'مولوی صاحب' ہوتے تھے۔ جن کے پاس فتووں کی پٹاری نہیں بلکہ اپنائیت بھری شفقت ہوتی تھی۔ جن کے آنگن میں فرقہ دیکھ کر حاضرین نہین آتے تھے بلکہ سب لوگ بے دھڑک محبتین اور دعائیں سمیٹنے آتے تھے۔ جو چندے مانگنے کو سارا دن لاؤڈ سپیکر پر گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنے لیے نت نئی گاڑیاں نہیں خریدتے تھے بلکہ جنہیں محلے والے اپنی خوشی سے خود اناج پہنچاتے تھے۔ وہ سادہ وقت جس سے نئی نسل بے بہرہ تھی اشفاق صاحب نے انہیں اس بارے میں بتایا۔ وہ پروگرام شاید اس دہائی کا سب سے بہترین پروگرام تھا جسے دیکھنے بیٹھتے تو آپ کی باتوں مین ایسا محو ہوتے کہ کب وقت گزرا اور کب 'داستاں گو' کی داستان ختم ہوئی، پتہ بھی نہ چلتا۔

پھر اشفاق صاحب کو مزید پڑھنے کو شوق ہوا تو ان کے افسانےپڑھے ایک محبت سو افسانے ہوں، یا گڈریا کا لازوال افسانہ جو ہر آنے والی نسل کا پسندیدہ افسانہ ہے جو آپ نے ایّامِ طالبِ علمی میں لکھا، پھر ایک محبت سو ڈرامے، کٹھیا وٹھیا، حیرت کدہ، سفر در سفر، بابا صاحبا وغیرہ وغیرہ اور پھر کتابی شکل میں 'زاویہ' جس کی سیریز چھپیں اور جو سب ایک سے ایک بڑھ کر بیسٹ سیلر قرار پائیں۔

اشفاق صاحب شاید اس عہد کے سب سے بڑے داستان گو تھے اور آپ نے فنِ داستان گوئی کو نئی راہیں دکھلائیں اور اسے اس کی معراج تک لے گئے جہاں سننے والا خود اپنے آپ جو اس داستان کا حصہ تصور کرنے لگتا تھا۔ اشفاق صاحب نے فنِ داستان گوئی کو اپنے پیغام کے ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ آپ نے زندگی میں بے تکان محنت کی، اپنے آپ کے لیے اپنا جہاں خود دریافت کیا، اس دوران آپکو قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، ابنِ انشاء اور سب سے بڑھ کر اپنی شریکِ حیات بانو قدسیہ جیسے یکتاِ روزگار شخصیات کا ساتھ میسر رہا، جس ساتھ نے آپ کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اشفاق صاحب کی زندگی سیکھنے سے عبارت ہے آپ نے بہت سیکھا اور ان لوگوں سے بھی سیکھا جنہیں عرفِ عام میں لوگ 'سائیں لوگ' 'بابا' کہتے ہیں۔ اشفاق صاحب نے ان سے سیکھے سبق جب سادہ الفاظ میں آگے پہنچائے تو وہ سیدھے دل تک لگے۔ ۔ جیسے ایک جگہ کہتے ہیں

جب کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو اوراگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو۔ یہ حقیقی تبلیغ ہے۔

اسے بزرگانِ دین تلاوت الوجود کہتے ہیں

ایسے ہی ایک جگہ نوجوان نسل کو سمجھانے کے لیے کانٹے کی مثال دیتے ہیں کہ

یہ صحیح ہے کہ تم ایک گلاب نہیں بن سکتے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم کانٹا بن جاؤ۔ یہاں ایک راز کی بات بتاؤں جو شخص کانٹا نہین بنتا وہ بالآخر گلاب بن جاتا ہے

اشفاق صاحب کی داستانوں میں غریب، مسکین ضرورت مند کی مدد، چاہے جانی ہو مالی ہو یا کم سےکم اخلاقی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اپنی کتاب 'بابا صاحبا' میں ایک جگہ کہتے ہیں

اصل خیر یہ نہیں بیٹا، کہ کسی بھوکے کو دیکھ کر ایک روپے سے اس کی مدد کر دی جائے بلکہ اصل خیر اس بھوکے کو اس وقت روپیہ دینا ہے جب تم کو بھی ویسی ہی بھوک لگی ہو اور تم کو بھی اس روپے کی ویسے ہی ضرورت ہو جیسی اس کو ہے۔

اشفاق صاحب نے بانو قدسیہ سے شادی کی اور یہ وہ جوڑا ہے جس کو اس معاشرے سے بے پناہ عزت و محبت، چاہت اور اپنائیت ملی۔ بانو آپا نے اپنے ہم سفر کے ساتھ اپنی یادوں پر مشتمل ایک کتاب 'راہِ رواں' کے عنوان سے لکھی۔ اس کتاب میں 'بابا صاحبا' کی یادوں کی برسات موسلا دھار نہیں، بلکہ پچھلے پہر کی بوندا باندی کی صورت ادھ کھلے دریچوں پر جھنکار بن کر توجہ طلب رہتی ہے، جس انداز میں بانو آپا اپنے 'راہِ رواں' کو یاد کرتی ہیں، پڑھنے والے کو بھی بے ساختہ ان کے ' خان صاحب' سے محبت ہو جاتی ہے۔

اشفاق صاحب نے اپنی داستانوں کے ذریعے خوشی کی متلاشی نئی نسل کو خوشی کے نئے معانی سے دوشناس کیا، ایک جگہ کہتے ہیں

خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو چار آنے دے دیے بلکہ خوشی تب ملتی ہے جب اپنے خوشی کے لمحات میں سے کچھ لمحے نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دکھی ہوتے ہیں، کوئی چیز آپکو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپکو روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے

۷ ستمبر ۲۰۰۴ کو لوگوں میں خوشیاں بانٹنے کی تلقین کرنے والا 'تلقین شاہ' سب کو اداس کر گیا اور 'سفر در سفر' کا داستان گو اپنی 'داستان سرائے' سے اپنے آخری سفر کے لیے روانہ ہو گیا۔ آپکے جنازے پر طلباء اور نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی جو اس کی کامیابی کا ثبوت تھی کیونکہ اس نے گزری ہوئی اور نوجوان نسل کے درمیان بڑھتے فاصلے سمیٹ دیے تھے۔

لوگ آج بھی آپکی آخری آرام گاہ جاتے ہیں اور آپکی تعویزِ قبر پر لکھا آپکا پیغام ایک وعدے کے طور پر اپنے ساتھ لے کر واپس آتے ہیں کہ،

خدا آپکو آسانیاں عطا فرمائے، اور آسانیان تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

خدا سے دعا ہے کہ ہم اشفاق صاحب کی اس دعا کی عملی تفسیر بن سکیں اور اس معاشرے میں پھر سے وہی سادگی اور بے ساختگی دیکھ سکیں جو اشفاق صاحب کا خواب تھی۔