تقسیمِ ہند ایک ایسا موضوع ہے جس پر تادیخ میں بہت کچھ لکھا گیا اور بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن پھر بھی بہت سے پہلو اس کے ایسے ہیں جو ابھی بھی عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ بہت سی کہانیاں ان کہی ہیں۔ اہلیانِ پنجاب نے جو دُلاّ بھٹی کے زمانے سے ایک دوسرے کی عزتوں کے رکھوالے کے طور پر جانے جاتے تھے نے مذہب کے نام پر عزتوں پر ایسے ڈاکے ڈالے ایسے ایسے ظلم کے پہاڑ توڑے کہ جدید تاریخ میں ایسی بربریت کے مظاہرے ایسی توہینِ انسانیت شاید ہی کہیں ایک انسان کی دوسرے انسان کے ہاتھوں ہوئی ہو۔
اس موضوع پر انگریزی اور ہندی میں بہت کام ہوا، اردو میں بھی شاعر اور ادیب حضرات نے اس پر مقدور بھر روشنی ڈالی جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل ایک انجانی سی اداسی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے خاص طور پر عبداللہ حسین کا ناول " اداس نسلیں"، اور قراءت العین حیدر کا نام "آگ کا دریا" شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیگر مصنفیں میں سے آپ منٹو کے افسانے پڑھیے، یا فیض صاحب کا کلام، ساحر کو پڑھیے یا شہاب صاحب کا افسانہ، گلزار صاحب کو دینا کی یاد میں آنسو بہاتا دیکھیے اور یا پھر امرتا پریتم کو پنجاب کے بٹوارے پر فریاد کرتا دیکھیے، آپ کو تقسیمِ پنجاب کا دکھ ہر جگہ ملے گا۔ امرتا پریتم کہتی ہے
اج آکھاں وارث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تو لِکھ لِکھ مارے وين
اج لکھاں دھياں روندياں تينوں وارث شاہ نوں کین
اٹھ دردمنداں دیا درديا اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بيلے لاشاں وچھياں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتی زہر رلا
تے اونہاں پانیاں دھرتی نوں دتا پانی لا
اس زرخیز زمین دے لوں لوں پھٹیا زھر
گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں فٹ فٹ چڑھیا قہر
جتھے وجدی سی پھوک پیار دی او ونجھلی گئی گواچ
رانجھے دے سب ویر بھل گۓ اودھی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا قبراں پیاں چون
پریت دیاں شاہزادیاں اج وچ مزاراں رون
اج سبھے کيدو بن گئے ايتھے حُسن عشق دے چور
اج کتھوں لياواں لبھ کے ميں وارث شاہ جيا ہور
اج آکھاں وراث شاہ نوں کِتوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول
اپنا گھر چھوڑنا کس کو پسند ہوتا ہے؟ اپنا شہر، رشتے دار، کل سرمایہ چھوڑ کر ایک انجانے دیس کی طرف چل پڑنا اسے کون پسند کرے گا۔ حتٰی کہ مقصود یہ قائدِ اعظم کو بھی نہ تھا نہ ہی ہجرت اقبال کا ہی خواب تھا۔ آپ کچھ بھی سمجھیے میرے نزدیک اہلیانِ پنجاب نے جلد بازی میں بدلےاور انتقام کی آگ میں اپنی دھرتی ماں کی مانگ بھی سونی کی، اپنے گھر میں لوٹ مار بھی کی، اور اپنی دھرتی کی بیٹیوں کو لوٹا بھی۔ اور خود بھی ہمیشگی کے لیے اپنے دونوں بازو کٹوا بیٹھے۔ ۔ ۔ کیا کریں کہ ظالم بھی خودی ٹھہرے جبکہ مظلوم بھی یہی ہیں۔
تقسیمِ ہند، درحقیقت تقسیمِ پنجاب تھی باقی علاقے نسبتاً پر سکون تھے۔ اور اس تقسیم کی قیمت بھی اہلیانِ پنجاب نے ہی چکائی۔ کیونکہ باقی علاقوں سے ہجرت پاکستان بن چکنے کے بعد نسبتاً پر سکون انداز میں ہوئی۔ افتاد تو اہلیانِ پنجاب پر نازل ہوئی۔ پوری کی پوری آبادی کی ہجرت اور راستے میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری۔
اسی مہاجرت کا نتیجہ یہ ہے کہ مشرقی پنجاب وہ شاید واحد خطہ ہے ہندوستان میں جہاں شاید ہی ڈھونڈے سے مسلم ملیں پوری کی پوری آبادی تہِ تیغ ہو گئی۔ آج بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو دل دکھ جاتا ہے۔ 'پنجاب کا بٹوارا' پڑھیے۔ ایسے ایسے دلخراش انسانیت سوز واقعات ملیں گے کہ دل کرچی کرچی ہو جائے گا۔ واقعتاً پاکستان بننے کی بہت بھاڑی قیمت پنجابیوں نے چکائی۔
پاکستان سے باہر اپنے سفر کے دوران عموماً سرحد پار کے پنجابیوں سے خصوصاً سکھ حضرات سے ملاقات رہتی ہے۔ ان سے بات کر کے اپنائیت ملتی ہے۔ سکھ لوگوں کے دم قدم سے پنجابی اور پنجابی ادب قائم ہے۔ ورنہ ہم تو پنجابی رسم الخط بھی چھوڑ چکے۔ ہماری نئی نسل کو کسی پنجابی شاعر کے کلام کا نہین پتہ چاہے وہ شاہ حسین ہوں، بلھے شاہ ہوں، وارث شاہ ہوں، بابا فرید ہوں، سلطان باھو ہوں یا استاد دامن ہوں۔ نیا پنجابی شاعر ابھر کے سامنے نہیں آ رہا۔ جب کہ سرحد پار پنجابی ادب خوب پنپ رہا ہے۔ وہ لوگ اپنی زبان سے احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں دھڑلے سے پنجابی میں بات کرتے ہیں، پنجابی کلچر اور ثقافت کو لے کر چلتے ہیں چاہے ہندوستان میں ہوں یا برطانیہ، کینیڈا میں۔ جب کہ ہم تقسیم کے مارے اپنی دھرتی میں اپنی زبان بولنا ہتک سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پنجاب میں ایک بھی پنجابی زبان کا اخبار نہیں چھپتا، کوئی مجلہ، رسالہ، ہفت روزہ پنجابی کا نہیں، کوئی بڑا ٹی وی میڈیا پنجابی زبان کا نہیں۔ یہ سب وہ تقسیم کے زخم ہیں جو پنجاب کے کلیجے پر لگے اور وہ انہیں ابھی تک سہ رہا ہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جن کے آباء و اجداد کا تعلق بارڈر کے اس پار سے تھا کتنوں کی پرکھوں کی قبریں وہاں ہیں مگر ہم وہاں نہیں جا سکتے، چاہ کے بھی نہیں جا سکتے۔ ایک لکیر نے سب بدل دیا گویا اولاد کو ماں سے چھین کے جدا کر دیا۔ ابھی بھی کئی بزرگ زندہ ہیں جو اپنے بڑوں کے شہر گاؤں کو یاد کرتے ہیں اور آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ کئی اُدھر ہیں جنہیں اپنا لائل پور، پنڈی، گجرات، لاہور یاد آتا ہے، ایسے ہی کتنے یہاں ہیں جو اپنے جالندھر، امرتسر، کپورتھلہ، ہوشیارپور کو یاد کرتے ملیں گے، ایک خلش ہے جو سینے میں محسوس ہوتی ہے۔
کہتے ہیں ناں کہ جب استاد دامن کو ہندوستان میں مشاعرے مین بلایا گیا اور انہوں نے وزیرِ اعظم نہرو کی موجودگی میں سب کے سامنے یہ کلام پڑھا تو وہاں بیٹھی ہر آنکھ نمناک ہو گئی۔
بھاویں مونہوں نہ کہیے پر وچوں وچی
کھوئے تسی وی او، کھوئے اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جائے گی
موئے تسی وی او، موئے اسی وی آں
جیوندی جاں ای، موت دے منہ اندر
ڈھوئے تسی وی او، ڈھوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسی وی آں’
کب قائد کا خواب پورا ہو گا، کب ہم امریکہ کینیڈا جیسے رہ سکیں گے۔ کب ہم اتنے آزاد ہوں گے کہ جب چاہیں بارڈر پر ویزا آن ارایول لے کر دوسرے ملک اپنی کار میں ہی جا سکیں۔ یہ وہ خواب ہے جو تین نسلیں دیکھتی دیکھتی چل بسیں۔ خدا جانے ہمارے نصیب میں بھی اپنے بزرگوں کے وطن جانا ہے یا نہیں۔