آج سے تقریباً چودہ سال قبل ۲۰۰۵ میں بھارت نے پاکستان سے جنگی قیدیوں کا تبادلہ کیا ان میں ایک ۶۵ سالہ سن رسیدہ قیدی بھی تھا جس کی زبان کٹی ہوئی تھی اور وہ بکھڑے بالوں اور اجڑی داڑھی کے ساتھ بوسیدہ پھٹے کپڑوں میں ملبوس پرانے کپڑوں کی ایک گھٹری اٹھائے شامل تھا۔ وہ شخص ۶۵ کی جنگ کا ہیرو سپاہی مقبول حسین تھا۔
پینسٹھ کی جنگ میں جب دشمن کی ڈپو پر حملہ کر کے اسے تباہ کر کے ہمارے جوان واپس جانے لگے تو ان میں سپاہی مقبول بھی تھا جس کے ذمہ وائر لیس اٹھانا اور کمپنی سے رابطہ رکھنا تھا۔ اس دوران دشمن نے پیچھے سے فائرنگ کی جس میں ایک فائر سپاہی مقبول حسین کو لگا۔ اس کے ساتھی اسے اٹھانے لگے تو اس جواں حوصلہ شخص نے کہا اگر تم مجھے اٹھائے گے تو یہاں سے نکل نہ سکو گے۔ آپ جائو میں آپکو پیچھے سے فائرنگ کور دیتا ہوں۔
ساتھی نہیں مان رہے تھے تو سپاہی نے خود کو ایک گڑھے میں گرا کر چھپا دیا۔ ساتھیوں نے ڈھونڈا نہیں ملا تو نکل گئے۔ پیچھے سپاہی مقبول حسین اکیلے دشمن کی نفری کے ساتھ برسرِ پیکار رہا اور اپنے ساتھیوں تک انہیں پہنچنے نہ دیا۔ یہاں تک کہ ایک فائر اسے لگا اور یوں زخمی مقبول حسین دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔ کون سا ظلم ہو گا جو سپاہی مقبول پر نہ کیا گیا۔ دورانِ قید ان کو ۴*۴ کی کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا جہاں نہ کھڑا ہوا جاتا تھا نہ لیٹا جا سکتا تھا۔ ان سے مسلسل سوالات کیے گئے، ہر طرح کا ظلم کیا گیا، مگر سپاہی مقبول حسین نے کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا، فقط ایک لفظ منہ سےنکالتے تھے پاکستان زندہ باد۔ یہ سن کر آخر کارغصہ میں کھولتے ہوئے بھارتی سورماؤں نے ان کی زبان کاٹ دی۔
اس بہادر شخص نے یہ ظلم بھی برداشت کیا مگر پاکستان کے مفاد کے خلاف ایک لفظ نہ نکالا۔
۴۰ سالہ قید کے بعد جب واپس آیا تو سیدھا واپس اپنی آزاد کشمیر رجمنٹ پہنچا اور جا کر افسر کے سامنے پیش ہوا اور کاغذ پر لکھا
"سپاہی مقبول حسین نمبر ۳۳۵۱۳۹ ڈیوٹی پر حاضر ہے"
یہ داستان سنانے کا مقصد یہ تھا کہ سپاہی مقبول حسین بھی جنگی قیدی تھا۔ اس کے بھی جنیوا کنونشن کے تحت وہی حقوق تھے جو ابھینندن نامی بھارتی پائلٹ کو حاصل ہیں۔ مگر اس کو ۴۰ سال قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ اس کی زبان کاٹی گئی۔ اپنی پوری عمر اس نے جیل میں ظلم برداشت کرتے گزار دی اس وقت کسی کو جنیوا کنونشن یاد نہ آیا۔
آج جنیوا کنوشن کو یاد کرتے آپ ضرور چھوڑتے بھارتی حملہ آور پائلٹ کو مگر رسول اللہ ص کی وہ حدیث بار بار سنانے والے اب کی بار وہ کیوں بھول گئے جس کا مفہوم ایسے ہے کہ تم سے پہلے قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ جب ان کے بڑے آدمی جرم کرتے تھے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا مگر جب کوئی غریب آدمی یہ کرتا تھا تو اسے سزا ملتی تھی۔
آپ بھارت کا پریشر ایک دن نہیں برداشت نہ کر سکے؟ آپ تو کہتے تھے میں آخری بال تک لڑتا ہوں، آپ تو پہلے اوور میں ہی کلین بولڈ ہو گئے۔ آج بھارتیوں کے ہاں جشن کا اور غرور کا سماں ہے وہاں کا میڈیا اسے ایسے رپورٹ کر رہا ہے کہ ہم نے بزورِ قوت عمران کو گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کر دیا بڑھکیں مارنے والا ہمارے سامنے کھڑا نہ ہو سکا۔ ایک مرتبہ دوبارہ میدان میں جیتی ہوئی بازی میز پر ہار دی گئی۔
پاکستان میں بیٹھے احباب دو چار ہندوستانیوں کی ٹویٹ دیکھ کر اسے فتح سمجھ رہے ہیں وہ اس لیے کہ آپکی طرف ہندوستانی چینلز نہیں آتے۔ ذرا دیکھیے آپکے اس بزدلانہ انداز میں جھکنے نے بھارتی چینلز پر بیٹھے تجزیہ نگاروں اور ان کی فوج کا مورال کیسے بلند کر دیا ہے۔ ہم سپر پاور ہیں دیکھیں ہمارے ایک عام سپاہی کو بھی پاکستانی ہاتھ تک نہیں لگا سکتے۔ پچھلے ایک عرصے سے بھارتی قوم کو ان کا میڈیا یہ پڑھا رہا ہے کہ پاکستانی ہماری لیول کے نہیں۔ یہ جاہل غریب منگتی قوم ہے، ہم ان سے بالا تر ہیں ان کا کام ہمارے نیچے لگ کر حکم کی فرماں برداری کرنا ہے۔ اور ہم ان کے اس بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں جب ہمارے ہاں آنے والے ہر بھارتی کی عزت سربراہِ حکومت کی سی ہوتی ہے۔ میڈیا آگے پیچھے، چینلز میں انٹرویو کی دوڑ۔ عوام سے بے پناہ پیار۔ دعوتیں۔ ہمارے سیاست دان ایک تصویر ساتھ بنوانے پر بے قرار۔ دوسری طرف ہمارے لوگوں کے ساتھ وہاں معاملہ برعکس ہے۔
ہم نے بھارتی بنیے کو مزاکرات کی میز پر لانے کا ایک موقع پھر کھو دیا۔ وہ جنگ جو مودی ہار گیا تھا۔ بھارت میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہا تھا وہ اسے دوبارہ جیت گیا۔
آپ کی بزدلی نے مودی کو بھارت میں بنا لڑے فاتح بنا دیا۔
کاش ہماری با اختیار حلقے یہ سمجھ لیں کہ پچھلی دو دہائیوں سے ہم حسنِ سلوک سے انہیں رام کرنے کی جتنی کوشش کر رہے ہیں وہ ہمیں اتنا ذلیل کر رہے ہیں۔ حتی کہ اب تو ہمارے برابر میں بیٹھنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جب تک آپ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کریں گے وہ آپ کو کبھی وہ عزت نہیں دیں گے جو بحیثیتِ نیوکلیائی طاقت ہمارا حق بنتی ہے۔