ہم روزانہ خبروں کی ہیڈ لائن میں دیکھتے ہیں کہ معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی تشددکیا جاتا ہے جس میں اکثر کی ہلاکت ہوجاتی ہے مگر مجھے گڈ گورنینس کی طرف سے کچھ نظرنہیں آتا۔ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں ان پر سزا اتنی موثرنہیں ہوتی بلکہ ان جرائم کے اسباب۔ پر سوچنا چاہئے اور اسباب کو دور کرنے سے جرائم میں 100% کمی آنے کا امکان ہوتا ہے۔
اسی احساس کے تحت حضرت عمرؓ کے دور میں روٹی اور کھانے کی اشیاء کی چوری پر ہاتھ کاٹنا موقوف کر دیا گیا تھا کے روٹی کی فراہمی اسٹیٹ کی ذمہ داری میں بھی آتی ہے۔ اسی طرح جیسا جرائم میں تشفی کے جائز اسباب کے حصول کیلئے اسٹیٹ کو سہولتیں فراہم کرنی چاہیئے ایک طرف ہمارا میڈیا شادی بیاہ کے مسائل کو اس طرح دیکھاتا ہے کہ شادی میں بے حد اخراجات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جسکی وجہ سے ایک شادی پر لاکھ روپے کا خرچ تو کوئی بات ہی نہیں اب وہ آدمی جس کی تنخواہ دس ہزار سے پندرہ ہزار تک ہے وہ بھلا شادی کیسے کر سکتا ہے۔ معاشرے میں اس کو اتنا آسان کرنا چاہیئے کہ شادی آسان ہو اور زنا مشکل ہو۔
حکومت کی طرف سے اس قسم کے اشتہارات دیئے جائیں جن میں آسان شادی کی وضاحت اور ترغیب ہونی چاہیئے۔ اسی طرح میڈیا اس ضمن میں پروموشن کرے اور علاقائی بنیاد پر مساجد کے امام جمعہ کی تقاریرمیں اس مسئلہ کو اسلامی نقطہ نگاہ سے بیان کرے اور مسلمانوں کی آسان ترین شادیوں کا تذکرہ کیا جائے۔
اندرونی طور پر لبرل (جدت پسند) شرم و حیاء سے آزاد اس مسئلے پر بے ہودہ طرز اختیار کیے ہوئے ہیں، یہ شادی میں تا خیر کو فیملی پلاننگ کا ایک طریقہ جانتے ہیں اور عورتوں مردوں کی آزادی کو اس قدر بڑھاوا دیتے ہیں کہ وہ زنا اور ہم جنس پرستی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس دجالی گروپ کی پوری کوشش ہے کہ پوری شدومد سےاللہ کی نا فرمانی کی جائے اور اسے نیو ورلڈ آرڈر کا حصہ سمجھ تے ہیں۔
1976ء میں تنزانیہ (افریقہ) میں یہی صورتحال تھی زنا کی افراط اور جنسی جرائم کی بہتات بھی تھی۔ تنزانیہ کی پارلیمینٹ نے ایک حدیث مبارکہ(حدیث: زنا سے روزی کم ہوجاتی ہے) کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ پر اسلامی نکتہ نگاہ سے توجہ دی جائےکیوں کہ ان دنوں تنزانیہ اور پورے افریقہ میں قحط پڑا ہوا تھا اور چاول کے جہاز باہر سے آرہے تھے مگر بھوک مٹانا بہت مشکل معلوم ہو رہا تھا غریبوں کی حالت بد سے بدتر ہو رہی تھی لہذا پارلیمینٹ نے 18سال کے لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کر دینے کی ایک تاریخ مقرر کر دی تھی اور اس کے بعد جو لوگ شادی کر نے میں ناکام ہونگے حکومت اپنی صوابدید پر ان کی شادی کرا دے گی۔ اس میں ایک مشکل یہ تھی کہ تنزانیہ میں ہندوستانی بھی بہت زیادہ تھے اور وہ افریقیوں سے اپنی بچیوں کی شادیاں ناممکن سمجھتے تھے مگر وقت گزرنے کے بعد حکومت نے زبردستی شادیاں کرائیں۔ تنزانیہ کے بوہری طبقے کے افراد نے (جوکہ افریقہ میں کثیر تعداد میں آباد ہیں) اپنے ہی آدمیوں میں دوسری شادی کو پروموٹ کیا اور اپنی بچیوں کو افریقیوں کے ساتھ زبردستی شادی سے بچالیا۔
نتیجہ کے طور پر عرض کروں کہ دوسرے سال زرعی فصلیں بہت اچھی ہوئیں اور قحط کے مسئلے پر قابو بالیا گیا یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ گناہ گاری کے ساتھ جنسی تسکین سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں لاتی۔
اللہ اور اسکے رسول کے مطابق اپنے معاشرت کو قائم کریں تو اللہ کے رحمتیں نازل ہونگی۔ میری حکومت سے استدعا ہے کہ اس مسئلے پر اسلامی فکر کے مطابق توجہ دیں اور خرابی کے اسباب کو اسلامی طریقوں سے حل کریں تا کہ ہماری سوسائٹی کی پاکیزگی اور طہارت میں اضافہ ہو اور ہم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔