انسان کی زندگی انواع و اقسام کی خواہشات سے عبارت ہے۔ ہر خواہش ایک سے بڑھ کر ایک۔ خواہش وہ منہ زور گھوڑا ہے جس کی باگ کوئی کوئی تھام سکتا ہے۔ ورنہ اکثر خواہشات کا یہ گھوڑا بے لگام رہتا ہے۔ ہر خواہش کی تکمیل اگلی خواہش کی طلب کا زینہ بن جاتی ہے اور یہ زینوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ در سلسلہ چل نکالتا ہے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جس کا دخول کا دَر تو ہے شاید خروج کا دَر کوئی نہیں۔ خروج کا دَر اگر ہے تو انسان کو اپنی ہمت سے خود ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا تھا۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
خواہش پہلی ہو یا آخری اطمنانِ قلب کسی منزل پہ میسر نہیں آتا۔ ہمارے ماموں سید تصدق حسین بخاری کہا کرتے تھے، بیٹا پیٹ کی بھوک مٹ جاتی ہے، نظر کی بھوک نہیں مٹتی۔ اگر دیکھا جائے تو انسان کی شاید اپنی دلی خواہشات محدود ہوں، لیکن جب ہماری آنکھیں وا ہوتی ہیں تو خواہشات کی بھوک مٹنے نہیں دیتی۔ اس کے پاس یہ ہے تو میرے پاس کیوں نہیں۔ ہماری اکثر خواہشات کی ڈور ہمارے قرب و جوار میں موجود افرد سے تقابل سے جڑی ہوئی ہے۔ اب تو شاید قرب و جوار اتنا وسیع ہوچلا ہے کہ ساری دنیا انسان کے جیب میں سمائی ہوئی ہے، یعنی مزید طلبِ خواہشات۔
انسان کو ہوش تب آتی ہے جب انسان کی آنکھیں وہ دیکھ لیتی ہیں جو ساری زندگی نہ دیکھا ہو، اور جب دیکھ لے تو مہلت نہیں رہتی کہ دنیا کو بتا سکے کہ وہ کیا دیکھ چکا ہے۔ جی ہاں، دُرست پہچانا، فرشتہِ اجل۔
ایک لمحے کو سوچئے اگر آپ اپنے آپ کو اُس لمحے موجود پائیں تو کیسا محسوس ہوگا؟ زندگی کے پچاس، ساٹھ سال دو لمحوں میں جب آنکھوں کے سامنے دوڑ جائیں گے شاید، شاید اُس لمحے قرآنِ مجید کی آیت کا یہ حصہ ذہن میں آئے کہ وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ۔ (آل عمران-185)۔
ابا جی فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا روحانیات میں کوئی بھی عامل جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس کی کوئی مدت ہوئی ہے بھلے وہ عمل 11 دن، 21 دن یا 41 دن کا ہو۔ عامل کو اس عمل کی انجام دہی میں انعام ملتا ہے جو اس عامل کی ریاضت کا پھل ہوتا ہے۔ کہتے تھے میں نے 40 سال کا عمل کیا ہے، 40 سال کی تپسیا کی ہے جس کا پھل مجھے اب مل رہا ہے۔ ابا جی خوش نصیت تھے کہ 40 سال کی محنت رنگ لائی اور اپنی زندگی میں تمام فرائض سے سبکدوش ہوگئے۔
زندگی کے آخری چھ ماہ میں ابا جی اکثر ایک خواہش کا شدت سے اظہار کیا کرتے تھے۔ خواہش کی شدت یوں بھی ذیادہ ہوگئی تھی کہ آخری تین ماہ بیڈ ریسٹ پہ تھے۔ کہتے تھے کہ میرے مولاؑ میری تمام خواہشات پوری ہوگئی ہیں بھائی بہن بیاہ دئے، اولاد بیاہ دی، اپنا گھر بنا لیا، اللہ کریم کا گھر دیکھ لیا۔ اب مجھے اتنی زندگی دے کہ میں اپنے مولا حسینؑ کے پاس کربلا حاضری دے لوں، پھر آپ جب چائے بلا لینا۔ خاکی جسم کے ساتھ ایسا شاید منظور ہی نہ تھا، سو اپنی زندگی کی آخری خواہش اپنے دل میں لئے چل دئے۔
رات کے کسی پہر نہ جانے کہاں سے یہ بات ذہن میں چپک کہ رہ گئی کہ امی جی کا پاسپورٹ بنوا لوں اور امی یا تو عمرہ پہ چلی جائیں یا زیارات پہ۔ پاسپورٹ اگلے چند دنوں میں بن گیا۔ ابا جی کی آخری خواہش میری سماعتوں اور ذہن میں موجود تھی، اس احترام میں فیصلہ یہ ہوا کہ امی جی زیارات پہ جائیں گی اور ابا جی کا ادھورا سلام اپنے مولاؑ کریم کی خدمت میں پہنچایا جائے تاکہ انکی آخری خواہش کی تکمیل ممکن ہوسکے۔
الحمد للہ، امی جی، ابو جی کی آخری خواہش کی تکمیل کے لئے 13 جنوری کو پہلے مشہد مولا رضاؑ سرکار، پھر قم حرمِ جنابِ فاطمہؑ، پھر کربلا اپنے مولاؑ حسینؑ کی بارگاہ، سامرہ اور آخر میں مولائے کائنات سرکار علی ابن ابی طالبؑ کی بارگاہ میں سلام عرض کریں گے۔
ہماری زندگی کی آخری خواہش فقط یہی ہے کہ جب ہم اس عالمِ دنیا سے وداع لیں تو زیاراتِ مولا حسینؑ نصیب ہو، مرشد کریم لینے آئیں، اور جب ابا جی کی سامنے پیش ہوں تو ابا جی فرما دیں، تنزیل اشفاق خوب کر آئے۔۔
اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائیں۔