جی سی میں قیام کے دوران ہمارے نہایت قلیل دوست بن پائے، ان میں سے ایک کے بارے تو خاکہ لکھ چکا۔ اب دوسرے دوست کی باری ہے کہ اب ان کا مختصر خاکہ پیش کیا جائے کہیں ان کے دل میں نہ آئے کہ وہ ہمارے شر سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے اپنےبارے سماچار سے بھی آگاہ ہو جائیں گے کہ ہم انہیں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بہتر ہے کہ وہ یہ خاکہ نہ ہی پڑہیں، اور اگر پڑھ لیں تو صبر کے گھونٹ پی لیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ آپ بھی کیا یاد کریں گے کہ کس سخی سے پالا پڑا تھا۔
موصوف سے ہماری جی سی سے قبل کسی قسم کی کوئی شناسائی نہ تھی، شاید یہی سبب تھا کہ زندگی پرسکون تھی۔ پھر جی سی کے قیام کے دوران بھی موصوف سے کوئی خاص شناسائی نہ ہو سکی، اس کے ممکنہ کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کا پہلے ہی کوئی محبوب ہو اور دوسرے یہ کہ شاید ہم نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہو اور ہم موصوف کو نظر نہ آئے ہوں۔ دوسری وجہ تو شاید ممکن نہ ہو کیوں کہ اس زمانے میں ہمارے پاس صرف کرائے کے 20 روپے ہوا کرتے تھے، اسی میں عیاشی اور اسی میں کرایہ۔ ہاں البتہ پہلی وجہ کے کافی سارے گواہ مل سکتے ہیں۔
ملک صاحب کے ایک اور دوست جن سے موصوف کو بلا کا لگاو تھا، وہ جس سکول میں پڑھے، ملک صاحب وہاں، جس کالج گئے ملک صاحب پیچھے پیچھے، حتیٰ کہ جس یونیورسٹی میں گئے ملک صاحب کی ہوا بھی اُسی طرف چل پڑی۔ ملک صاحب اکثر وبیشتر ان کے ساتھ 'لوورز گارڈن 'میں پائے گئے۔ ملک صاحب کا اُن دنوں یہ حال تھا کہ گویا 'رانجھا رانجھا آکھو مینوں، ہیر نہ آکھے کوئی'، گویا کہ یک جان دو قالب، گویا کہ ان کی آغوش میں ملک صاحب کا سر مبارک۔ ملک صاحب کا بس نہ چلتا ورنہ وہ کلاس کو بھی لوورز گارڈن بنا ڈالتے۔
ملک صاحب کی عادات ہمیشہ اپنے مفاد کے لئے وقف رہیں۔ ہمیشہ شرط بھی وہ لگاتے کہ جس میں ہارنے کے باوجود پیٹ اپنا ہی بھرتا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک صاحب کسی بات پہ شرط لگا بیٹھے، شرط بھی کیا، کہ کون کونڈا دہی کا کھائے گا، موصوف دہی کاکونڈا تو نہ کھا سکے، ہاں البتہ دو کلو دہی زہر مار کر ہی گئے۔ اس کے بعد ٹھکانہ وہی تھا، لوورز گارڈن۔ ملک صاحب، لوورز گارڈن کی گھاس پہ یوں پلسیٹے مار رہے تھے گویا۔۔۔۔۔۔۔ ملک صاحب بلا کے خوش خوراک واقع ہوئے ہیں۔ جب کبھی سیکرٹیریٹ کی المشہور کوزی حلیم کھانے کا نام آتا، ملک صاحب کو خوشی کے مارے غشی کے دورے پڑنا شروع ہو جاتے۔ جانے سے پہلے ہی اعلان کردیتے کہ سب کی 'گریویاں' میں ہی لوں گا۔ یوں ملک صاحب پہلے منگوائی گئی پلیٹوں میں حلیم کھاتے اور اس کے بعد باری باری گریویاں ڈکارتے۔ گو دکان والے عجیب نگاہوں سے ملک صاحب کو دیکھتے مگر ملک صاحب کی حالت یہ ہوتی کہ 'من تو شدم تو من شدی۔۔'
دوران مطالعہ جب کبھی ہمارے مشترکہ دوست کے گھر صرف ملنے کے لئے آتے، زبردستی اس ملاقات کو حلیم پارٹی بنا ڈالتے۔ جو بندہ حلیم لینے جاتا اسی خصوصی ہدایت کرتے کہ دکان والے سے کہنا گریویاں شاپر میں ہی ڈال دے۔ تمام دوست کھا پی کہ اٹھ جاتے مگر ملک صاحب تب تک کشتی لڑتے جب تک حلیم خود نہ کہ دیتی، 'بس بھئی ملک صاحب میں مُک گئی آں'۔
جی سی سے ڈگری لینے کے بعد ملک صاحب کے محبوب سے مراسم کچھ اچھے نہ رہے، بس تب سے ہی ملک صاحب کو اب اتنی بھوک نہیں لگتی۔ جس دن کہہ دیں کہ آج بھوک نہیں ہے، اس دن ملک صاحب اُتنا ہی ڈٹ کے کھاتے ہیں، اور جس دن بھوک ہو معاملہ الٹ ہوتا ہے۔
آج کل ملک صاحب ایک معتبر ہستی ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ خاکہ پڑھنے کے بعد ملک صاحب مجھے حلیم سمجھ کہ کھا ہی نہ جائیں۔ سو اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد تب تک ان کو نہیں ملنا جب تک میں میں ہی رہوں حلیم نہ رہوں۔ جب سے محبوب کی شکل نگاہوں سے اوجھل ہوئی ہے، تب سے ہم ملک صاحب کو نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔
ملک صاحب کی ایک دکھتی رگ، شادی کا نہ ہونا ہے، یوں تو ملک صاحب نے کسی دوست کا ولیمہ نہیں چھوڑا کہ شاید ولیمے کھانے سے شادی جلد ہو جاتی ہے، مگر اب موصوف 34 سال کے ہو چلے ہیں، ہنوز دلی دور است۔ ملک صاحب ان حالات کے ذمہ دار ہمارے مشترکہ دوست کو دیتے ہیں کہ دوست نے کہا تھا، کہ ملک صاحب اول تو آپ کی شادی ہونی نہیں اگر ہوئی بھی تو ہمارے بچے آپ کی شادی میں شرکت کریں گے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک صاحب کے سامنے شادی کا تذکرہ کرے تو مارے غم کے آنکھیں گیلی ہو جاتی ہیں۔
آپ سب مل کر دعا کریں کہ ملک صاحب کی شادی جلد از جلد ہو جائے اور آپ ثواب دارین کے حقدار ٹھہریں۔