انسانی زندگی جزا و سزا، خطاء و عطاء، درست و غلط فیصلہ، اتار چڑہاو، ہدایت و گمراہی سے مملو ہے۔ اللہ کریم نے انسان کو ایسا نظام ودیعت کیا ہے کہ وہ اپنے غلط افعال کو اپنے درست فیصلوں اور عمل سے درست ڈگر پہ ڈال سکتا ہے۔ گو اس نظام کی نعمت ہر انسان پر ہوئی ہے لیکن جنہوں نے غلط رستے کا ابدی انتخاب کر لیا ہو، وہ اس نظام کو بھی میٹھی نیند سلا دیتے ہیں۔ انجام صرف اور صرف بچتاوا۔
اسلام اور ہمارا معاشرہ ہم سے خود احتسابی کا مطالبہ کرتا ہے۔ تزکیہ نفس اسی نظام کی ایک شاخ ہے۔ تزکیہ نفس میں ہم عالم کثافت سے عالم لطافت کی طرف سفر کرتے ہیں۔ اسی طفیل ہم اس ظاہری جسم اور روح کو لطافت کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گو یہ سفر نہایت دشوار ہے لیکن اس کی منزل نہایت خوبصورت ہے۔ کچھ بندے عارضی اور دنیوی چمک دیکھ کر دائمی منزل کو قربان کر بیٹھتے ہیں اور دنیا کہ ہو رہتے ہیں۔ لیکن عقلمند، دانا، فقیر اس دنیا کی خباثتوں پہ تین حرف بھیج کر اخروی منزلوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہ دونوں دو انتہائیں ہیں، ایک کے نزدیک دوسرا بے وقوف اور دوسرے کے نزدیک پہلا۔ پہلا کہتا ہے کہ بس یہ دنیا ہی ہے، آخرت کس نے دیکھی ہے۔ اس دنیا میں جیو، زندگی کا لطف لو، دنیا کی رنگینیاں ہی زندگی گزارنے کا اصل مدعا ہے۔ دوسری طرف بن دیکھے کا سودا ہے، انہیں یہ سب سراب دکھتا ہے۔ یعنی آنکھوں کا دھوکہ، عارضی، فانی اور بے وفا۔ تو جس دنیا میں اتنے نقائص ہوں، اس کا چاہنا سراسر حماقت ہی ہے۔ سو وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس سے لاتعلق رہتے ہیں۔
دونوں کے دلائل میں وزن ہے، تو پھر عام انسان کیا کرے کس طرف جائے؟ ضرورت درمیانی راہ کی ہے اور اسی کی تلقین اسلام نے کی کہ دین بھی اور دنیا بھی۔ نہ دنیا کے لئے دین کو چھوڑو یہ دین کے لئے دنیا کو۔
خیر بات چلی تھی خود احتسابی سے۔ اس خود احتسابی نظام کا جج ضمیر ہوتا ہے۔ اور وکیل دل و دماغ۔ وکیل اپنے دلائل دیتا ہے اور ضمیر اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ ہر کیس میں فیصلہ فورا ہوتا ہے۔ یہ انسان پہ منحصر ہوتا ہے کہ وہ فیصلہ پہ عمل کرے یا ضمیر کے فیصلے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی راہ متعین کرے۔ ضمیر عموما کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ ہاں مگر کچھ لوگ اس جج کو اپنے نفس کے ہاتھوں اتنا مجبور اور کرپٹ کر دیتے ہیں کہ پھر نہ عدالت لگتی ہے نہ فیصلہ آتا ہے۔
خود احتسابی ایک ہمہ جہت نظام ہے جس کی بدولت فوری فیصلے ہوتے ہیں۔ ہم اس نظام کو اپنی زندگی کے کئی امور پہ نافظ کرسکتے ہیں جس کا اثر مثبت ہوگا۔ آپ اپنی زندگی میں آنے والے چھوٹے چھوٹے معاملات بھی ضمیر کی عدالت میں لے جائیں اور ضمیر کے کئے ہوئے فیصلے پہ عمل کیجئے۔ یقین کیجئے آپ اپنی زندگی میں پیش آنے والی بہت ساری جھنجھٹوں سے نجات حاصل کر لیں گے۔ اپنے ماں باپ سے بدتمیزی کرنے سے پہلے اپنے ضمیر سے پوچھیں ضرور کہ کیا یہ درست ہے؟ یہ جملہ کہنے سے پہلے کہ میرے ماں، باپ نے میرے لئے کیا کیا ہے؟ اپنے ضمیر سے پوچھ ضرور لیں کہ کیا یہ جملہ کہنا درست ہے؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا۔
کسی کو دھوکہ دینے سے پہلے، ملاوٹ کرنے سے پہلے، بدکاری کرنے سے پہلے، گراں فروشی کرنے سے پہلے، ڈاکہ مارنے سے پہلے، حق تلفی کرنے سے پہلے، بہنوں کو والدین کی جائداد میں حصہ نہ دینے سے پہلے، اپنی بیوی پہ ظلم کرنے اور گھر سے نکالنے سے پہلےایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ اپنے ضمیر کی عدالت لگایئے، آپ سرخرو ضرور بہ ضرور ہوں گے۔
اللہ کریم آپ سب کا ہامی و ناصر ہو۔