انسان کو اللہ کریم نے کچھ اس انداز سے دنیا میں بھیجا کہ کچھ امور پہ اسے اختیار ودیعت کیے اور کچھ اختیارات اپنے پاس رکھے۔ یوں نہ تو انسان کلی طور پہ خود مختار ہے اور نہ ہی مجبور کہ کچھ بھی نہ کرسکے۔ جن امور پہ اختیار عطا کیا، اس کی قدر بسا اوقات بندہ نہیں کرتا، اور جن امور کا اختیار اللہ نے اپنے پاس رکھا، ان کا حصول اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ یہ امر کس قدر اطمنان بخش ہے کہ جس امور کا اختیار اللہ کریم نے اپنے پاس رکھا اگر وہ اختیار بندوں کو تفویض کردیتا تو شاید دنیا اس حالت میں نہ ہوتی۔ صد شکر اس ذاتِ بے نیاز کا کہ وہ عادل ہے وہ تمام کائنات پہ بہ قدر حصہ اپنے انعامات مسلسل کئے جا رہا ہے۔
انسان کا اس دنیا میں آنا ان امور میں سے ہے جن پہ بندے کو اختیار نہیں، ماں باپ چننے کا اختیار کسی بندے کے پاس نہیں۔ لیکن اسی ماں باپ کو شعور کی وادیوں میں اترنے کے بعد پیار، محبت اور وارفتگی کے جزبے سے معمور کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ بندہ جس گود میں زندگی کے ابتدائی پانچ سال کھیلا ہو اور ماں کی جن باہوں میں اپنا لڑکپن اور جوانی گزاری ہو، بندہ وہ گود اور بازو کیسے بھلا سکتا ہے۔ ماں کے لمس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ یہ شفیق ہاتھ میری ماں کے ہیں۔
پھر یوں بھی ہوتا یہ کہ بندے پہ جوانی آنا شروع ہوتی ہے تو دوسری جانب بڑھاپے کا آغاز۔ ایک طرف زندگی کی اٹھان ہو رہی ہوتی ہے اور ایک طرف ڈھلوان پہ سرکتی زندگی۔ ایک طرف جوان ولولے، جذبات، خواہشات، امنگیں تو دوسری طرف اپنے رب کی طرف واپسی کی تیاریاں۔ ویسے بھی بڑھاپا نام ہے بیماریوں کی دعوت کا۔
ہمیں یہ بات کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمیں اپنی ماں سے فنا کی حد تک عشق ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری فنا میں اگر انکی بقا پوشیدہ ہے تو ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصے کے لئے ہم توقف نہیں کریں گے اور بقا کے لئے فنا ہوجائیں گے۔
گزشتہ جمعہ ایک ایسی ہی کیفیت کا شکار ہم ہوئے۔ جسے دامن تحریر میں لاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ ہم اپنے دفتر جانے کے لئے الوداعی سلام کرنے امی جی کے کمرے میں داخل ہوئے، جہاں امی اپنے بستر میں استراحت فرما رہیں تھیں، ان کی نگاہیں چھت کی جانب اٹھی ہوئی، وحشت اور اجنبیت لئے وا تھیں۔ میرے بلانے پہ میری طرف دیکھا ضرور، لیکن مجھے لگا جیسے اب تک امی مجھے پہچان نہیں سکیں۔ لب یوں خاموش جیسے کتنی صدیوں سے گویا نہیں ہوئے۔ یہ لمحے میرے لئے کسی بھی عذاب سے کم نہ تھے۔ وہ آنکھیں جنکے سامنے ہم پل کر جوان ہوئے، ہمیں پہچاننے سے انکاری۔ یا خدا کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ ہمیں لگا جیسے ہم کسی ویران صحرا میں اکیلے کھڑے ہیں جہاں ماں کی ممتا نام کا کوئی درخت نہیں۔
امی جی کو بہ مشکل دوائی کھلائی اور دل پہ پتھر رکھ کے دفتر آئے، لیکن دماغ میں اس دوران ماں ہی ماں تھی۔ ابھی کام مکمل کیا ہی تھا کہ گھر سے فون آگیا کہ امی جی کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ مجھے نہیں خبر کہ دفتر سے گھر کیسے پہنچا۔ اگر اللہ کریم کا کرم نہ ہوتا تو شاید گھر نہ پہنچ پاتا۔ گھر پہنچتے ہی امی جی کو سی ایم ایچ ایمرجنسی میں لے گئے، گو امی جی کہتی رہیں کہ میں ٹھیک ہوں، میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
اس اللہ کریم کا شکر ہے کہ اس نے کرم کیا اور اب امی جی بخیر ہیں۔ سوچتا ہوں وہ لوگ کتنے بدنصیب ہیں، جن کے ماں اور باپ دونوں یا کوئی ایک موجود ہیں اور وہ ان سے کسی قسم کی بدتمیزی کرلیتے ہیں؟ اپنی ماں اور اپنے باپ کی قدر کیجئے۔ یہ دونوں اللہ کریم کا وہ احسانِ عظیم ہیں کہ بندے قیامت تک سجدہ شکر میں پڑے رہیں تو حق ادا نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسا خزانہ ہیں جو زندگی میں صرف ایک ہی بار عطا ہوتے ہیں اور اگر یہ خزانہ ایک مرتبہ چھن جائے تو کائنات کے خزانے خرچ کرنے پہ بھی یہ خزانہ واپس نہیں ملتا۔