آپ کے نزدیک قیمتی ترین چیز کیا ہے؟ ایک ایسا سوال جس کا ہر جواب دوسرے جواب سے مختلف ملے گا۔ وجہ ہر شخص کی اپنی اپنی جداگانہ درجہ بندی ہے۔ ہر شخص کی ہر درجہ بندی کسی نہ کسی علّت کے سبب ہوگی جو ہمارے لئے لائقِ احترام ہونا چاہئے۔ ویسے بھی درجہ بندی ہوئی قیمت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو درجہ بندی کر رہا ہے۔
ایسا ممکن ہے کہ یہ درجہ بندہ کسی اور کی مرتب کی گئی درجہ بندی سے یکسر مختلف ہو۔ آپ اگر خود سے پوچھیں کہ آپ کو میٹھے میں سب سے ذیادہ کیا پسند ہے ممکن ہے جواب ہو کہ گلاب جامن، دوسرے شخص کے نزدیک رس گُلا یا سوہن حلوہ۔ اب درجہ بندی کس لحاظ سے ہوئی، اس کی ظاہری قیمت، اسکے ذائقے یا ذاتی پسند سے۔ کچھ لوگ سوہن حلوہ مہنگا ہونے کے سبب پسند کریں گے کہ مہنگا ہے تو اچھا بھی ہوگا۔ ایسا بھی ممکن کسی کے نزدیک یکسر ایسا معاملہ نہ ہو، اسے سوجی کے حلوہ میں وہ سواد آئے کہ جس کے سامنے سوہن حلوہ ہیچ ہو جائے۔
قیمت مادی چیز کی لگ سکتی ہے۔ مادی چیز کو شاید ہم قیمت کے عوض تول سکتے ہیں، اسکی بولی لگا سکتے ہیں، خرید سکتے ہیں۔ لیکن غیر مادی یعنی روحانی چیز کو آپ کیسے تولیں گے؟
اور پھر جب آپ تول نہیں سکتے تو اسکی حقیقی قیمت سے آپ ناواقف ہی رہیں گے۔ حتیٰ کہ وہ روحانی تحفہ آپ پہ بیت نہ جائے۔ اللہ کریم کی تخلیق شدہ یہ کائینات، یہ زمین دونوں عوامل کی حامل ہے۔ مادی اور روحانی۔ ان کا حصول انسان کی اپنی بساط پہ ہے کہ وہ کیا اور کتنا حصول چاہتا ہے۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مُرشد کے بتائے ہوئے ایک وظیفے، باپ کی، کی گئی نصیحت، ماں کی مامتا کی کیا قیمت ہے؟ شاید ایسا ممکن نہیں۔ کلّی طور پہ تو ہرگز ممکن نہیں، ہاں مگر اس کی اہمیت و قیمت کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔
وظیفے کی ادائیگی کے بعد ملنے والی رفعتیں، باپ کی نصیحت پہ عمل کے بعد ملنے والے انعام اور ماں کی عطاء کی گئی مامتا وصول کرنے کے بعد ہی ممکن ہے کہ انسان اندازہ لگا پائے کہ یہ سب کس اہمیت کے مالک ہیں۔
حضرتِ انسان پہ اللہ کریم کی سب سے بڑی کی گئی نعمتوں میں سرِفہرست ماں اور باپ۔ ماں سراسر رحمت ہی رحمت اور باپ زمانے کی سختیوں سے بچانے والا وہ درخت، جس کی گھنی ٹھنڈی چھاؤں کا کوئی نعمل بدل نہیں۔ جھلسا دینے والی حدت میں جائے امن۔ ماں باپ وہ راستہ جو یقیناََ صراطِ مستقیم سے ملحق ہوتا ہے۔
ماں یا باپ یا دونوں کا جدا ہوجانا ایسا دقیق امر ہے جس کے سامنے مادی دنیا ساری کی ساری قربان کر دی جائے پھر بھی قیمت کا تعین ممکن نہیں۔ علماء اور بڑوں سے سنا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نفسا نفسی ہوگی کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔ میں عالم تو نہیں نہ ہی مفتی ہوں، ہاں مگر ایک جذبات کی رو میں بہنے والا ایک عام انسان۔ میرا چشمِ تصور اس کو قبول کرنے میں تعامل کا شکار ہے۔
اس دنیا سے رخصت کے بعد، عالم برزخ میں قیام ہوتا ہے۔ ان دونوں عالم میں ایک پردہ ہے، اس کے باوجود جانے والے لوٹ کے آتے ہیں، احادیث میں آتا ہے کہ اللہ کریم کے اذن سے ہر جمعرات آتے ہیں، اپنے گھر والوں کے پاس، انہیں ملتے ہیں۔ شاید دعائیں بھی دیتے ہوں جیسے اس زندگی میں دیتے تھے۔
یہ ملنا بتا رہا ہے کہ وہ عالمِ برزخ میں منتقل ہونے کے بعد بھی بھولے نہیں، گو وہ ہماری ظاہری آنکھ کی زد میں نہیں آپاتے، مگر وہ ہمیں دیکھتے ہیں، پہچانتے ہیں، شاید ہم سے اپنے دل کی باتیں بھی کرتے ہوں جن کو ہمارے سماعتیں نہ سن سکتی ہوں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عالمِ برزخ کے بعد وہ ہمیں بھول جائیں۔
ابھی کل ہی بعد از نماز فجر ابا جی خواب میں آئے، دیکھا کہ کوئی دو افراد انہیں لاتے ہیں اور لا کے بٹھا دیتے ہیں۔ مجھے خواب میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ جانے کتنا عرصہ ہوچلا ہے ان سے بچھڑے ہوئے۔ میں اپنی چارپائی سے اترتے ہوئے ان کی طرف یوں گرتا ہوں جیسے انسان اونٹ سے گرے۔ جیسے ہی قریب پہنچتا ہوں سب سے پہلے ان کی قدم بوسی کرتا ہوں، پھر دوسرے پاؤں کا بوسہ لینا چاہتا ہوں، ابا جی مجھے سینے لگا لیتے ہیں۔ کیا اس ملاقات کا کوئی نعمل بدل ہے، کیا اس خواب کو خریدا جا سکتا ہے، کیا اس خواب کی کوئی قیمت ہے؟
بعض اوقات انسان روحانی انعام کو مادی ترازو میں تولتا ہے کہ قیمت کا تعیّن کرپائے، یا پھر اس لئے کہ ہم جیسے عام فہم قاریوں کو سمجھا سکیں۔ وگرنہ وہ رہتے بیش قیمت ہیں جن کی قیمت کا ادارک ممکن ہی نہیں۔ جیسا کہ انور مسعود صاحب نے کہا تھا۔۔
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا
آخر میں یہ دعا کہ اللہ کریم ہمارے مرحومین کے درجات بلند فرمائیں۔
اللہ کریم ہم سب کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائیں۔