حضرتِ انسان پہ مختلف کیفیات وارد ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ کیفیات منفی اور کچھ مثبت۔ مثبت کیفیات کو دوام اور منفی کو فوری فنا ہونا چاہئے۔ لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ منفی کو دوام اور مثبت کیفیت کو فنا کر بیٹھتے ہیں۔ یقیناََ ایسے لوگ ہی خسارے کا شکار ہیں۔
یوں تو حضرتِ انسان کا آغاز ہی بہت سے سہاروں کے سہارے قائم ہوتا ہے کہ اگر یہ سہارے میسر نہ ہوں تو آغاز فوراََ ہی اختتام پذیر ہو جائے۔ مجبوری کی کیفیت میں ماں، باپ، بہن، بھائی کے سہارے کی بدولت بچپن، لڑکپن میں اور لڑکپن نوجوانی میں، نوجوانی بھر پور جوانی میں منتقل ہوتی ہے۔
اس بھرپور جوانی میں تازہ خون جوش مارتا ہے، اور جب یہ جوش اپنے عروج پہ ہوتا ہے تو پھر وہ سرمستی میں کہتا ہے کہ "اَنَا" یعنی کہ "میں"۔ یہ نعرہ بھی اُسی وقت ذہن میں گونجتا ہے کہ "مجھ جیسا کون ہے بھلا؟"
تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ جب جب یہ نعرہ گونجا ہے، تب تب اللہ کریم نے حضرتِ انسان کو کچھ مہلت کے بعد اُس کو اُس کی اوقات دکھائی۔ تاکہ انسان سمجھ سکے کہ لفظِ انا کا اطلاق صرف اللہ کریم کے لئے ہی موزوں ہے۔
خوش نصیب ہیں وہ انسان جو وقتِ مقررہ سے پہلے توبہ کے دروازے پہ رجوع کر لیں ورنہ اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیاں چُگ کئیں کھیت۔
حضرتِ انسان کے دعویِٰ انا کے بعد جیسے ہی جوانی بڑھاپے کی جانب مائل ہوتی ہے تو احساسِ جرم ہونا شروع ہوتا ہے اور یہ اپنے نقطہِ کمال پہ تب پہنچتا ہے جب پڑھاپا مکمل طور وارد ہو جاتا ہے اور پاؤں قبر میں محسوس ہوں۔
یہ لفظِ انا، جب ذہنِ انسانی میں سرایت کرتا ہے تو مجرم ہوتے ہوئے بھی نہ ندامت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی معزرت۔ حالانکہ بزرگ فرمایا کرتے ہیں کہ بیٹا آپ کی غلطی نہ بھی ہو تو معزرت کر لو کہ اس سے رب راضی ہوتا ہے۔
اس لفظِ انا کی کیفیت اگر بیٹے پہ وارد ہو تو باپ غلط لگتا ہے، میاں بیوی کے رشتے میں آجائے تو وہ ایک دوسرے کو غلط لگتے ہیں۔ اس عارضی اور جھوٹی کیفیت کے عوض انسان وہ کر بیٹھتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو۔ گھروں کے ٹوٹنے، رشتہ داروں کے قطع تعلق میں بنیادی وجہ انا ہے۔ بقول شاعر
اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا
میں اہم تھا، یہ وہم تھا بڑی دیر تک رہا
یقین مانیں، آپ کی زبان سے نکلا ہوا معزرت، معاف کیجئے کا ایک لفظ انا کے بُت کو پاش پاش کر دینے کے لئے کافی ہے۔ گو اس میں صرف آپ کی زبان ہلتی ہے، لیکن اس کے اثرات نہایت خوش کن اور دیر پا ہوتے ہیں۔
ان الفاظ کی ادائگی سے کئی رشتے جو مشرق و مغرب کے فاصلے برابر دور ہو چکے ہوں، انہیں ختم کر دیتے ہیں۔
اللہ کریم آپ سب کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔