سال تھا 2011، مہینہ دسمبر اور تاریخ 20، جب میرا آنگن رحمتِ خداوندی سے شرابور ہوگیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس لمحہ ہم والد ہونے کے منصب پہ سرفراز کئے گئے۔ اللہ کریم کی یہ رحمت سیدہ فدک زہرا تھی۔
فدک زہرا آج گیارا سال کی ہوچلی ہے۔ آج کے دن اگر خود کو اپنی بیٹی میں دیکھوں تو محسوس ہوتا ہے بشمول دیگر اوصاف، وہ میری ایک خامی کی حامل ہے۔ وہ خامی ہے فضول میں جلنا۔
وہ کام جو برسوں پہلے میں کرکے چھوڑ چکا، فدک اب اس خامی پہ عمل پیرا ہے۔ فدک زہرا اپنی کزن فصیحہ بتول کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی اور جلن بھی اسی سے محسوس کرتی ہے۔
اس میٹھی نفرت کا سب سے بڑا مظہر یہ کہ فصیحہ کے لاہور آنے سے پہلے فدک نے سکول میں کچھ سہیلیاں بنائیں تھیں، جو فصیحہ کے آنے پہ اس کی سہیلیاں بن گئی۔ اب بقول فدک، فصیحہ نے اس کی سہیلیاں چھین لی ہیں۔
نہ صرف سہیلیاں چھینیں بلکہ اُس کی سالگرہ پہ اسے تحفے بھی دیتی ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں ہے نہ یہ بری بات۔ چلیں یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی، مزید برا یہ کہ فدک کو کوئی تحفہ نہیں دیتا۔
آگے بڑھیں۔
سال 2017 میں اللہ کریم نے ایک بیٹی عطاء کی جو کچھ دیر کی مہمان ٹہھری اور واپس اللہ کریم کے پاس چلی گئی۔ 2017 سے 2000 تک فدک زہرا تقریباََ ہر روز ایک ہی فرمائش کرتی، مجھے وہی بہنا چاہئے۔ لاکھ سمجھاتے کہ بیٹا آپ کی چچا زاد بہنیں بھی آپ ہی کی بہنیں ہیں، لیکن جواب ایک ہی ہوتا بس مجھے وہی بہنا چاہئے۔
پھر اللہ کریم نے جون 2021 میں شاید اُس بہنا سے بہتر بہنا عطاء کی۔ فدک بہت خوش ہوتی۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب چھوٹی بہنا کے نئے کپڑے آتے، نئی چیزیں آتیں، فدک اپنی عادت سے مجبور ہو جاتی اور اس سے بھی جلنے لگی، کہ وہ آپ کو ذیادہ پیاری ہے، اس کے لئے لائے ہو میرے لئے نہیں۔ میں آپ کو پیاری نہیں ہوں۔۔
ہن دسّو بندہ کدھر جائے۔۔
تب سے ہم اس اصول پر کاربند ہیں کہ جو چیز سکینہ عباس کے لئے آئے گی، فدک زہرا کے لئے بھی وہی چیز آئے گی۔ ورنہ کسی کی چیز بھی نہیں آئے گی۔
آج فدک زہرا کو دل کی گہرائیوں سے سالگرہ مبارک۔ آپ کے لئے ڈھیروں سارا پیار اور سالگرہ کے تحفے حاضر۔ بس آپ وعدہ کیجئے کہ آپ جلیں گی نہیں۔
اللہ کریم ہم سب کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائیں۔