ملک صاحب نے کافی عرصے بعد یاد کیا، کہاں ہو؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم آپ سے ناراض ہیں۔ کہنے لگے کیوں؟ عرض کیا کہ سارے جہاں کہ پتہ چل گیا کہ ملک صاحب آج کل کیوں خوش ہیں، نہیں پتہ تو صرف مجھے نہیں پتہ۔ کہنے لگے میں راضی کر لوں گا۔ ہم بھی اپنی دُھن کے پکے تھے، کہا ملک صاحب، ہم نے آپ کا بائکاٹ کر رکھا ہے، نہ آپ کو ملنا ہے اور نہ ہی صلح کرنی ہے۔ یہ خوشی کیا ہے وہ ذرا بعد میں۔۔
ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی، ملک صاحب نے کمال ڈھیٹ پنے سے پکا منہ کرکے بات کی۔ بندہ حیرت سے ملک صاحب کے بارے سوچے کہ یہ بندہ ہے یا ملک۔۔
ملک صاحب نے آج سے کچھ عرصہ قبل، فون کیا اور آگاہ کیا میں آپ کی طرف آرہا ہوں۔ دور دور تک آنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ خیر لاکھ تاخیری حربے اختیار کیے لیکن ملک صاحب نے حکم کیا کہ میں رستے میں ہوں بس آیا ہی چاہتا ہوں۔ ملک صاحب یوں تو ملاقات کے لئے ساری زندگی وقت پہ نہ آنے کی قسم کھائے بیٹھے تھے، لیکن اُس دن پتہ نہیں ملک صاحب میں کس کی روح حلول کر گئی تھی کہ ملک صاحب دیئے ہوئے وقت پہ نازل ہوگئے۔
اب ملک صاحب آئے تھے اور کہہ کے آئے تھے یار میں کھانا کھا کر آیا ہوں کوئی تکلف نہیں۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ ملک صاحب کتنے سادے انسان ہیں کہ اپنے میزبان پہ بار نہیں بننا چاہتے، تو آپ غلط سوچ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ کہ آج ٹکا کے کھانا کھائیں گے ملک صاحب۔
ملک صاحب کی پوشیدہ چوائس کو مد نظر کھتے ہوئے فُل سجی کا آرڈر دیا گیا، گو وہ کہتے رہے کہ بس بس اور نہ کچھ منگوانا یہ بھی بہت ذیادہ ہے، ساتھ ہی ساتھ ہلکی آنچ پہ مسکراتے رہے۔ ملک صاحب کا باقی کا رویہ تو ٹھیک تھا لیکن یہ ہلکا ہلکا مسکرانا ملک صاحب کی آمد کو مشکوک بنا رہا تھا۔ ملک صاحب نے سجی سے پورا پورا انصاف کیا۔
سجی سے لطف اندوز ہونے کے بعد ملک صاحب نے واک کا موڈ بنا لیا۔ لاکھ جان چھڑائی لاکھ سمجھایا کہ جانے دو مگر ملک صاحب جب اپنی آئی پہ آئے ہوں تو کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ آدھ کلومیٹر کا چکر لگنا تھا کہ ملک صاحب نے کمینی مسکراہٹ چہرے پہ سجاتے ہوئے کہا کہ کچھ پیا جائے۔۔ بہت سمجھایا کہ یہاں کچھ نہیں پینے کو، کہنے لگے تمہیں نہیں پتہ، یہاں ملک شاپ ہے، وہاں سے تازہ گرم دودھ جلیبی ڈال کے پیتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ آج ہو کیا رہا ہے۔ ملک صاحب نے خیر اپنا تو پیالہ پیا سو پیا، میرا پیالہ بھی غٹا غٹ کر گئے۔۔ مولا جیسے تیری مرضی۔۔
یہ سب معاملات تو رہے ایک طرف میں ملک کی مسکراہٹ پہ اٹکا ہوا تھا۔ ضرور کچھ نہ کچھ ہے۔ بلی تب تھیلے سے باہر آئی جب ملک صاحب نے دوسرا پیالہ اندر اور خوشخبری باہر نکال کے سنائی، میری شادی ہونے والی ہے۔۔
ہم کبھی ملک کو کبھی پیالے کو کبھی اپنی جیب کو دیکھیں کہ ہو کیا رہا ہے۔۔
ملک صاحب اپنے پرنور چہرے پہ مسکراہٹ لائے اور اپنی شادی کا کارڈ ہمارے سامنے کیا اور کہا سب نے آنا ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ ملک صاحب کہ چہرے پہ مسکراہٹ کیسی ہے۔ خیر گلے شکوے کیئے اور شکر بھی ادا کیا کہ ملک صاحب لگتا ہے یہ آپ کی آخری ملاقات ہے۔
ہم نے بھی ملک صاحب کی شادی پہ گن گن کے بدلے لئے وہ یوں کہ اپنی ساری فیملی ملک صاحب کی شادی پہ لے گئے۔ ہمارا تو دل تھا کے اپنے ہمسائے بھی ساتھ لے چلیں کہ ملک صاحب کی شادی ہے کہ ملک صاحب آپ بھی کیا یاد کریں گے۔ لیکن عین موقع پہ ہمسائے ساتھ چھوڑ گئے۔
جیسے ہی ملک صاحب کی تقریب رسم حنا پہ پہنچے ملک صاحب مکمل تیار اور منتظر۔ ملک صاحب کے تاثرات دیدنی۔ جب سارے یار دوست ڈھول کی تھاپ پہ رقص فرما رہے تھے، تب ملک صاحب نے بڑے مشکل سے خود کو تھامے رکھا کہ میں ملک ہوں۔۔ میرا اندازہ ہے کہ ملک صاحب نے "اندرواندری" قندری دھمال ڈالی ہوگی۔
ملک صاحب کی ہمت تھی کہ ولیمہ کے لئے بھی تاکید کی کہ ضرور آنا ہے وہ اس لئے کہ ملک صاحب جانتے تھے کہ سلامی جو اب تک نہیں ملی ضرور ولیمے والے دن ملے گی۔ ولیمے والے دن سب سے پہلے تو خوب سیر ہو کے کھانا کھایا، جب دیکھا کہ ملک صاحب مصروف ہیں اور سب نکلنے لگے ہیں تو ہم نے بھی نکلنے کی کی۔ بدقسمتی یہ کہ ملک صاحب پتہ نہیں ہم پہ ہی آنکھ رکھے ہوئے تھے۔ چار و ناچار ایک عدد سلامی والا لفافہ ملک صاحب کے حوالے کیا اور ساتھ ہی آگاہ کردیا کہ کھول کے دکھ لینا، یہ نہ ہو لفافہ خالی ہو۔۔
یوں ملک صاحب اب شادی شدہ کلب میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور تب سے غائب ہیں۔ جب پوچھیں ملک صاحب کہاں ہیں، جواب ایک ہی ملتا ہے، جی اسلام آباد۔۔