انسان کا صاحبِ اولاد ہونا ایک شرف ہے جو اللہ کریم کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اولاد بصورت بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ہیں۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جی بس بیٹا ہی ہو، کچھ کو یہ ہوتا ہے کہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں تو ایک بیٹا اور ہو جائے تاکہ جوڑی پوری ہو جائے، اور کچھ کی صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں۔
یہ تقسیم ویسے تو اللہ کریم کی جانب سے ہی ہے وہ چاہے تو رحمت سے نوازے یا نعمت سے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اللہ کی رحمت گھر آنے پہ اتنے خوش نہیں ہوتے جتنے نعمت کے آنے پہ ہوتے ہیں۔ جتنی مٹھائیاں بیٹے کے آنے پہ بٹتی ہیں اتنی ہی بیٹی کے آنے پہ نہیں بٹتی۔ حالانکہ بیٹی کا بھی آپ پر اُتنا ہی حق ہے کہ جتنا بیٹے کا ہے۔
اللہ کریم نے مجھے پہ کرم کرتے ہوئے سب سے پہلے بیٹی دی جسے سیدہ فدک زہرا کے نام نے موسوم کیا۔ یہ گھر کی نئی نسل کی پہلی فرد۔ فدک کو سارے گھر والوں سے بہت سا پیار ملا۔ فدک کی آمد پہ اپنے سارے دفتر میں مٹھائی بانٹی کہ اللہ کریم نے بیٹی عطاء کی ہے۔ فدک کے آنے پہ کچھ رشتہ داروں نے ہمدردی کرنے کی کوشش کی کہ اللہ بیٹا بھی دے گا، جس پہ ہم نے گزارش کی کہ بیٹی الحمد للہ، اللہ کی رحمت ہے اور ہمیں اتنی ہی عزیز ہے جتنا بیٹا۔ ہمیں کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں۔
فدک کے بعد اللہ کریم نے ہمیں بیٹا دیا جسے سید ریحان حیدر کے نام سے موسوم کیا اور جسے اب پیار سے ہم حیدری کہتے ہیں۔ بہن کی طرح بہت ذہین۔ جتنی فدک شریر اس سے ذیادہ حیدری شریر۔ فرق یہ کہ حیدری شرارت کر کے چھپاتا نہیں، جبکہ فدک شرارت اتنی مہارت سے کرتی ہے کہ مظلوم بھی رہے اور شرارت بھی ہو جائے۔
حیدری کے بعد اللہ کریم نے پھر سے رحمت عطاء کی مگر وہ رحمت آنے کے کچھ ہی لمحوں میں ہم سے جدا ہو گئی۔
کافی سالوں بعد اللہ کریم کو ہم پہ ترس آگیا اور پھر سے اللہ کریم نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا۔ جیسے ہی یہ خبر ہمیں ملی زبان سے بے ساختہ الحمد للہ رب العالمین نکلا۔ اس رحمت کو ہم نے سیدہ سکینہ عباس کے اسم سے موسوم کیا۔ سکینہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے گھر کی آنکھوں کا تارا بن گئی ہے۔ گو گھر میں اور بھی بچے ہیں، لیکن اتنے بچوں کے ہوتے ہوئے سب کی آنکھ کا تارا بننا کمال ہے۔
سکینہ پچھلے ہفتے تین دن کے لئے ننھیال گئی، یہ تین دن کیسے گزرے مت پوچھئیے۔ آپ جیسے ہی سکینہ کو بلائیں، کھلکھلا کہ ہنستی ہے اور یہ ہنسی دیکھ کہ تمام تھکان ختم ہو جاتی ہے۔ شُکر الحمد للہ۔
مجھے جتنا مان اپنے بیٹے پہ ہے، اس سے کہیں ذیادہ مان اور فخر اپنی بیٹیوں پہ ہے۔ مجھے اس بات پہ کوئی شرمندگی نہیں کہ میری دو بیٹیاں ہیں۔ شرمندگی کا باعث ہو بھی کیسے سکتی ہیں کہ میرے آقا و مولا امام حسین علیہ السلام نے بیٹی کو نمازِ شب کی دعا میں مانگا ہے۔
بیٹی کی درست تربیت کرنا اتنا ہی ضروری جتنا بیٹے کی۔ دونوں ہی یکساں توجہ کے طالب۔ دونوں کے لئے حصولِ علم ضروری۔
اللہ کریم آپ سب کی بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے اور اولاد کو فرمانبردار کرے۔ اللہ کریم ہم سب کو آسانیاں عطاء فرمائیں اور ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطاء فرمائے۔