یہ زندگی ایک پہیلی ہے جو اسے بوجھ گیا وہی سرفراز ٹھھرا۔ پہیلی بوجھنا ایک فن، دانشمندی، شعور کا ارتقاء، حکمت اور اچھی تربیت کے سبب ہی ممکن ہوتا ہے۔ پہیلی بوجھنے سے پہلے مقصدِ زندگی پنہاں ہوتا ہے جوں ہی آپ پہیلی بوجھ لیں، زندگی جینے کا مقصد آپ کے سامنے آموجود ہوتا ہے۔
پہیلی بوجھ لینا یقیناََ ایک کامرانی ہے لیکن اصل امتحان اور منزل ہمارے سامنے ایک اور بھی ہے کہ ہم اپنی منزل اور مقصد کی تکمیل میں قائم رہیں اور ہمارے قدم دورانِ سفر ڈگمائیں نہیں۔ اکثر یہ راستہ دشوار گزار ہوتا ہے لیکن اگر نگاہ منزل پہ ہو تو یقیناََ یہ دشواریاں پیشِ نگاہ نہیں ریتیں۔
ابا جی فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا ہمیشہ اپنا ارادہ بلند رکھو، نظر 99 نمبر سیڑہی پہ ہو اور سعی پیہم کرتے رہو، اگر 99 نمبر سیڑھی پہ بوجوہ نہ بھی پہنچ سکے تو 80 ویں سیڑھی کے قریب قریب تو پہنچ ہی جاؤ گے، اور اگر پیشِ نگاہ ہی 33 نمبر سیڑھی ہو تو پھر کامیابی بھی مشکوک ہوجاتی ہے کہ کامیابی ملے گی بھی کہ نہیں۔
سیڑھی یقیناََ ایک سبب ہے اپنی منزل کی طرف بڑھنے کا۔ جیسے استاد کسی بھی زندگی میں سیڑھی کا کردار ادا کرتے ہیں، ویسے ہی آپ کے اچھے بھائی موجود ہوں تو زمانے کی سختیوں کی پرواہ نہیں رہتی، انسان زمانے میں غم و اندوہ کی آندھیوں میں بھی سرپٹ دوڑتا ہے کہ منزل دِکھ رہی ہوتی ہے۔
بحمد للہ، اللہ کریم نے مجھے ہر سمت سے نوازا ہے۔ ہم تین بھائی کاندھے سے کاندھا ملا کر ابا جی کے گلشن کی آبیاری کر رہے ہیں۔
میں اپنے دونوں بھائیوں کے لئے دعا گو ہو کہ مولاؑ کریم آپ کو شاد و آباد رکھیں، اتفاق، صحت کے ساتھ نوازیں۔
ڈھیروں دعائیں۔۔