قول و فعل یوں تو الگ الگ الفاظ ہیں مگر انکا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ دو الفاظ اگر کسی معاشرے میں الگ الگ ہوں تو یہ دو الفاظ اس معاشرے کی سماجی، معاشرتی، اخلاقی گراف کا کام دیتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ یہ معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہاں انسان نہیں حیوان بستے ہیں۔ یہاں نہ کوئی نظام ہے نہ قانون ہے اور نہ ہی کوئی رہبر۔ اور اگر یہی دو الفاظ اکٹھے ہو جائیں تو زمین کو جنّت نظیر، انسان کو معراج، رہبرمثالی اور لوگوں کو اعلٰی ظرف بنا دیتے ہیں۔
پروردگار عالم فرماتے ہیں لما تقولون ما لا تفعلون یعنی تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ آپ اگر غور فرمائیں تو آپکو انگریزوں کی اکثریت ایسی دیکھیں گے جنکے قول و فعل میں تضاد نہیں اسی لیئے انکے ممالک میں امن شانتی کا راج ہے۔ انکے مقابلے میں ہماری طرف اگر آپ نظر گھما کر دیکھیں گے تو آپکو یہاں قول و فعل کا واضح تضاد نظر آے گا۔ آپ ہمارے ملک کے حکمرانوں سے ممبر کے خطیب تک دیکھیں آپکو اکثریت اسی بیماری کے شکار نظر آئیں گے۔ اسی سبب ہمارے ملک میں امن و امان کی کمی، شدّت پسندی، منافقت، جھوٹ اور ہر روحانی بیماری جا بجا نظر آے گی۔
جب تک ہمارے معلم، سکول، ممبر، مساجد ایسے لوگوں کے پاس رہیں گی تو حالات ایسے ہی رہیں گے۔ جب تک متذکرہ مقامات پر ایسے لوگ نہیں آجاتے جنکے قول و فعل میں تضاد نہ ہو یہ سب ایسا ہی رہے گا بلکہ حالات اس سے بھی ابتر ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ اس بات کا اندازہ لگائیں کی مسجد کے مولوی صاحب جمعرات کے دن صبح صبح لاوڈ سپیکر کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں میں تو ۱۰، ۱۰ روپے کے عوض جنّت مین مکان کی رسیدیں تو عطا کر رہے ہوتے ہیں مگر خود انھوں نے کبھی چندہ دیکر جنّت میں پلاٹ نہیں خریدا۔ لوگوں کو تو نیکی کی دعوت دیتے ہیں مگر خود کو اثتثنا رہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم کریں، یہی ہمارا مذہب ہمیں درس دیتا ہے اور اسی کا وہ متقاضی ہے۔ اسی میں ہماری اخلاقی، سماجی، دنیوی اور دینی ترقی مضمر ہے۔