1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید تنزیل اشفاق/
  4. سید اشفاق حسین بخاری

سید اشفاق حسین بخاری

آج بہت رنجور ہوں، دل گرفتہ ہوں۔ اپنے احساسات بیان کرنے سے عاجز ہوں۔ خود کو منہ زور آندھی میں معلق محسوس کر رہا ہوں، جس کا نہ کوئی ٹھکانہ ہو نہ کوئی راہ نما۔ جب آندھی کو سکون ہوگا، خدا جانے جائے پناہ کہاں میسر آئے۔ ایسا وقت جب کوئی ہمت بندھانے والا موجود نہ ہو، کوئی ایسا بھی موجود نہ ہو کہ تکلیف میں آپ اُس کے کندھے پہ اپنا سر رکھ کر دل ہلکا کر سکیں۔ جہاں آپ کو اپنے دکھ کے آنسوؤں کی صورت اظہار پہ پابندی ہو، کہ رونا نہیں، ٹوٹنا نہیں ورنہ سب کچی دیوار کی طرح ڈھے جائیں گے۔ ایسی لاچارگی میں کیا کیا جائے۔ سینے میں قید یادوں کا لاوا ہے جو جوش پہ جوش مارتا ہے اور ہر دم باہر نکلنے کے لئے ہر رکاوٹ توڑ کر برآمد ہونے کو تیار ہے۔ اس یادوں کے لاوے کی سطح پہ منہ زور چلتی آندھیاں بھسم کر دینے والی حدت کو جسم کے رگ و پے میں پہنچا رہی ہیں۔ ہر پل کائناتِ جسم ٹوٹ رہی ہے، مر رہی ہے پھر زندہ ہو رہی ہے۔

16 مئی 2021 ہمارے لئے پیغامِ قیامت لے کر آیا۔

ابا جی زندگی 63 سال کی بھرپور زندگی گزار چکے، لیکن پچھلے 2 سال سے شوگر جیسی موزی بیماری سے لڑ رہے تھے۔ ابتدا میں یہ زخم معمول کا بائیں پاوں پہ ابھرنے والی دراڑ تھی۔ ابا جی کبھی کولڈ کریم لگالیتے، کبھی ویزلین، کبھی زخموں والی کریم۔ یہ مزید بگڑا تو بستی میں موجود شوگر کے ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ علاج چلتا رہا لیکن بجائے زخم مندمل ہونے کہ بڑھتا ہی رہا۔ یہ علاج کم و بیش ایک سال چلتا رہا۔

اس دوران ہمارے ماموں جی اللہ کو پیارے ہوگئے، یہ دو ہفتے ابا جی نے پرہیز نہ کیا، نہ ہی ادویات کا استعمال کیا۔ پاؤں پہ پٹی مگر لگتی رہی۔ اس کے بعد لاہور سے سیالکوٹ ہر ہفتے پٹی کے لئے جاتے رہے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ زخم میں موجود ریشہ شدید تکلیف کا باعث بنا۔ اس دوران پاؤں کی ایک انگلی معالج نے کاٹ دی، اور دوبارہ لاہور ریفر کر دیا۔

لاہور میں علاج جاری رہا۔ پاؤں کی ایک انگلی تو کٹ چکی تھی، مگر امید تھی کہ پاؤں بچا لیا جائے۔ 2 ماہ مسلسل روزانہ بلا ناغہ پٹی ہوتی رہی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ دوسری، تیسری، چوتھی اور پھر انگوٹھا بھی کٹوانے پہ مجبور ہوئے۔ لیکن مرض اور تکلیف رکی نہیں۔ اب یہ زخم پنڈلی کی طرف بڑھا اور مجبورا پنڈلی کو سرجری کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اب تک ابا جی کی طبیعت اتنی نہیں بگڑی تھی۔

ایچ بی کاؤٹ ٹیسٹ کروایا گیا، اب ہم پہ انکشافات کے پہاڑ ٹوٹنا شروع ہوئے اور پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ معاملات کیا ہیں۔ ایچ بی کاؤنٹ ایک صحتمند انسان میں 14 ہوتا ہے جبکہ ابا جی 7.6 کے حامل تھے۔ یعنی جسم طلب کے نصف خون پہ چل رہا تھا۔ شوگر رپورٹ نے عیاں کیا کہ ان کی شوگر مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابا جی ادویات مسلسل کھاتے رہے۔ معاملات اب اس نہج پہ آچکے تھے کہ زخم کا انفکشن خون میں شامل ہو چکا تھا اور وہ خون سارے جسم میں سرگرداں تھا۔ ہمیں خون لگوانے سے منع کیا گیا، لیکن سب کے اسرار پہ لگوا دیا۔

خون لگوانے سے پہلے ابا جی مسلسل دو ہفتے غشی کی سی کیفیت میں رہنے لگے۔ ہمیں آگاہ کیا گیا کہ اب ان کے پاس وقت ذیادہ نہیں ہے، انکی ذیادہ سے ذیادہ خدمت کر لیجئے۔ ذہنی طور پہ ہم تیار ہوچلے تھے۔ لیکن امتحان یہ تھا کہ بھائیوں، بہنوں اور امی کو کیسے بتایا جائے۔

اس دوران ہمارے عزیز ڈاکٹر صاحب ابا جی کی عیادت کے لئے آئے، ابا جی کی حالت دیکھ کر رنجیدہ ہوئے اور ہمیں کہا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ کیا شاہ صاحب کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ جملہ ہمیں کھا گیا۔ ان سے اس بات کا وعدہ لیا کہ علاج کے درمیان چھوڑیں گے نہیں، سو ایک مرتبہ پھر انکی نگرانی میں علاج شروع ہوا۔ یہ علاج 4-5 دن چلا لیکن طبیعت کبھی سنبھل جاتی اور کبھی ابا جی ڈھے جاتے۔

یہ دو ماہ ہم پہ کیسے گزرے کچھ خبر نہیں۔ نہ دن کے طلوع ہونے کی خبر نہ رات کے چھا جانے کی۔ رات گیارہ بجے تک ابا جی کا خیال رکھتے، 11 سے 2 بچے امی پاس ہوتیں، 2-4 بجے پھر دعا کے لئے ابا جی کے پاس، 4-5 بجے بھائی آجاتے، 6-7 بجے پھر ابا جی کو فیڈ کروانے کے لئے موجود، آدھ گھنٹہ آرام اور پھر 8 بجے ڈاکٹر صاحب آجاتے، پھر 2 بجے تک ابا جی کے ساتھ، اس کے بعد 4 سے رات 11 بجے۔ یہ معمول ہر دن رہا۔

ہم ہر لمحہ مرتے، پھر جی اٹھتے کہ نہیں ٹوٹنا نہیں ہے۔ اپنے سے چھوٹوں کو ٹوٹنے نہیں دینا۔ ہم ٹوٹ گئے تو سب ڈھے جائیں گے۔ بندہ کہیں دور ہو پھر بھی کچھ سکون ہو جاتا ہے کہ آپ کا اپنا آپ کی آنکھوں کے سامنے نہیں۔ جہاں ہر لمحہ آپ کا اپنا آپ کی آنکھوں کے سامنے مٹھی میں بند ریت کی مانند ہر لمحہ آپ سے دور ہو رہا ہو۔۔

یوں دورانِ علان 16 مئی آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا آکسیجن سیچوریشن کم سے کم ہورہی ہے۔ انہیں کورونا نہ ہو۔ ٹیسٹ کروانے کے لئے فون کیا، بعد میں اندازہ ہوا کہ ایسا کرنے سے ابا جی ہمارے پاس نہیں رہیں گے، ہسپتال والے لے جائیں گے، جہاں کورونا کا تو کیا جو علاج اور کیئر ہم کر رہے ہیں وہ بھی نہ ہوگا۔ گویا اپنے ہاتھوں ابا جی کو موت کے حوالے کرنا۔ اب یہ فیصلہ کیا کہ ٹیسٹ نہیں کروانا، ہم اور ہمارا بھائی ابا جی کے ساتھ قرنطینہ ہو جائیں گے اور علاج کریں گے۔

ڈاکٹر صاحب کا جانا تھا کہ ہم ابا جی کے پاس آئے۔ ابا جی کے ہونٹ خشک، پوچھا ابا جی پیاس لگی ہے، سر ہلایا جی۔ کہاں سکنجبین بنوا دوں، سر ہلایا ہاں۔ مشروب بن کے آیا۔ دو منٹ تک سٹرا ابا جی کے منہ سے لگا کے رکھا لیکن نہ پیا۔ ابا جی کو لٹا دیا گیا۔ ابھی آدھا منٹ نہ ہوا تھا کہ ابا جی کی سانسوں کی مالا ٹوٹ گئی، دل کی دھڑکن نے ساتھ چھوڑ دیا۔ گو ہمیں اندازہ ہو چلا تھا کہ ابا جی ہمارے پاس نہیں رہے، ڈاکٹر صاحب کو بلوایا، آتے ہی دیکھ کر کہا انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ابا جی کی آخری رسومات غسل سے کفن اور کفن سے جنازہ اور جنازہ سے دفن خود شرکت کی۔ اور کوشش کی کہ کسی فریضہ کی انجام دہی میں کمی نہ آئے۔ اس دوران ایسے بہت سے معاملات کا شاہد ہوا کہ جو اکثریت کے لئے باعثِ یقین نہ ہوں۔

تب سے اب تک خدا جانے میں کسی کیفیت میں ہوں۔ ابا جی ٹوٹ ٹوٹ کے یاد آتے ہیں۔ آخری دنوں جب وہ بول نہ سکتے تھے بانہیں پھیلا دیں، امی جی نے کہا، گلے ملنے کا کہہ رہے ہیں۔ میں گلے ملا، ابا جی نے میرے چہرے پہ بوسہ دیا۔ یہ شاید آخری بوسہ تھا۔ ابا جی، اب میری پیشانی پہ کون بوسہ دے گا؟ میرا ہم راز اور راہمنا اب کون ہے؟ ابا جی آپ کے جانے پہ مجھے رونے بھی نہیں دیا گیا، دنیا سمجھی کہ سخت دل ہے، واللہ میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں، بکھر چکا ہوں۔ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

اس سب کے باوجود اللہ مولا صبر دینے والا ہے۔ اتنے مصائب جب ہم پہ آتے ہیں تو دل میں خیال آتا ہے کہ ہم پہ تو اتنی تکلیف آئی اور ہم ڈگمگانے والے ہو گئے، کیا کہنے مولا حسینؑ کے، انکی بہنوں کے، انکے بیٹوں پہ جو خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے میدانِ جنگ میں اپنے پیاروں کو اس یقین کے ساتھ بھیجتے رہے کہ یہ اب واپس نہیں آئیں گے۔ کیا ہی کہنے مولا حسینؑ کے جو اپنے اٹھارہ سال کے بیٹے علی اکبرؑ کو میدان میں بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں لوگو، اب وہ آرہا ہے جو شبیہ محمد مصطفیﷺ ہے۔ قاتل یہ کہہ کے برچھی سینے میں پیوست کرکے توڑ دیتاہے اور کہتاہے سنا ہے حسینؑ بڑا صابر ہے۔ واہ رے استقامت حسینؑ کے کہ ناد علیؑ پڑھ کے سینہِ اکبرؑ سے برچھی نکالی اور دادا ابراھیمؑ سے کہادادا دیکھئے صبرِحسینؑ۔

ہمیں ہر مشکل اور مصیبت میں صبر و استقامت کربلا والے عطا کرتے ہیں۔ میں اپنے اللہ و مولا سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمارے ابا جی کی آنے والی منازل آسان فرمائے، انکے درجات بلند فرمائے۔ ہمیں اللہ کریم استقامت، صبر اور انکے متعین کیئے ہوئے رستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سید تنزیل اشفاق

Syed Tanzeel Ashfaq

سید تنزیل اشفاق، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل، سافٹ ویئر انجینیر ہیں۔ اردو، اسلامی، سماجی ادب پڑھنا اور اپنے محسوسات کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنا پسند کرتے ہیں۔