کچھ جانوروں نے مل کر جنگل میں ایک سکول کھولنے کا فیصلہ کیا۔ سکول کے طالب علموں میں پرندے، مچھلیاں، کیچوے، جانوراور خرگوش شامل تھے۔ سکول کے بورڈ آف ڈائریکڑز نے فیصلہ کیا کہ تمام طالب علموں کو یکساں تعلیم دی جائے گی، پانی میں تیرنا، درخت پر چڑھنا، ہوا میں اڑنا اور بل بنا کر اس میں رہنا، ان تمام مضامین کو لازمی قرار دیا گیا اور ان تمام مضامین کو مساوی نمبروں میں تقسم کیا گیا۔ تاکہ تمام طالب علم اپنے متعلقہ علم کے علاوہ دوسرے علوم سے بھی آشنا ہو جائیں۔ پرندے چونکہ اڑنے میں ماہرہوتے ہٰیں اس لئے شروع کے امتحان میں ان کا ہوا میں اڑنے کے مضمون میں اے پلس گریڈ آیا، لیکن باقی کے مضامین میں بری طرح ناکام رہے، اس لئے پرندوں نےدوسرے مضامین میں کامیاب ہونے کے لئے اپنے مضمون کو چھوڑ کر باقی مضامین کی تیاری شروع کر دی۔ پہلے انہوں نے بل بنانے اور اس میں رہنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ان کے پر بری طرح زخمی ہو گئے اور وہ اگلے امتحانوں میں باقی کے مضامین کی طرح اڑنے والے مضمون میں بھی ناکام ہو گئے۔ مچھلی کے لئے پانی سے باہر رہنا ممکن ہی نہیں تھا، اس نے پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچی، اس لئے دوسرے مضامین میں حصہ لینا مچھلی کے لئے ممکن نہیں تھا، وہ بھی باقی کے تمام مضامین میں ناکام رہی۔ خرگوش شروع کے امتحان میں بل بنانے اور اس میں رہنے کے مضمون میں اچھے نمبروں سے کامیاب رہا لیکن باقی کے مضامین میں ناکام ہو گیا اس لئے اس نے اڑنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے وہ اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھا اور باقی کے امتحانوں میں وہ اور مضامین کی طرح بل بنانے کے مضمون میں بھی بری طرح ناکام ہو گیا۔ کیچوا چونکہ کسی بھی کام میں ماہر نہیں تھا اس لئے وہ سب مضامین میں تھورے تھورے نمبر لے کر پاس ہو گیا۔ سکو ل کے بورڈ آف ڈائریکٹر کیچوے کی پرفارمنس سے بہت خوش ہوئےاور اس کو اپنے سکول کی ڈگری دے دی اور ساتھ ہی کیش انعام بھی دیا۔
ہمارے نظام تعلیم کو بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو اسی قسم کی مماثلت نظر آتی ہے۔ میں یہاں نظام تعلیم کے حوالے سے بات کرنے کی بجائے ہمارے اردگر د رائج نظام کی بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جہاں ہمیں بچپن سے ہی یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ اپنی پسند، اپنی خواہش، اپنا ٹیلنٹ سب کچھ چھوڑ کر اس طرف جاو جس طرف کی ہوا چل رہی ہے، جہاں زیادہ رجحان ہے یا جہاں پر مستقبل زیادہ روشن ہے۔ اسی کشمکش میں ہر کوئی اپنا اپنا ہنر بھول کر دوسرے کے بل میں گھسنے کی کوشش میں اپنا آپ اور اپنی فطرت کو بھول جاتا ہے اور جس دوسرے شعبے میں جاتا ہے وہاں وہ ایمانداری سے نہ کام کر تاہے، نہ ہی کر سکتا ہے اور اپنی بساط کے مطابق تباہی مچاتا رہتا ہے اور یہ تباہی صرف اس متعلقہ پیشے میں ہی نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر بھی موجود رہتی ہے اور اس کا خمیازہ ساری زندگی وہ خود اور اس کے اردگرد کے لوگ بھگتتے رہتے ہیں۔ ہم نے اکثر ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو جس جگہ بھی کام کرتے ہیں اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ انکا رویہ انتہائی ذلت امیز ہوتا ہے۔ وہ لوگ ہر وقت اکتاہٹ کا شکار رہتے ہیں، زندگی سے بیزاری ہر وقت ان کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ جہاں موجود ہوتے ہیں وہ ان کی جگہ نہیں ہوتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مچھلی تیرنا چھوڑ کر ہوا میں اڑنے کی کوشش شروع کر دے اور اچھی کارکردگی دکھائے، یہ کیسے ممکن ہے کہ پرندہ ہوا میں اڑنا چھوڑ کر پانی کی گہرائی میں تیرناشروع کر دے اور اچھی کارکردگی دکھائے، یہ کیسے ممکن ہے شیر پہاڑ پر چڑھ کر اس امید سے چھلانگ لگائے کہ وہ شاہین کی اڑان تک پہنچ جائے گا؟۔ یقیناً یہ ممکن نہیں۔ لیکن انسانوں میں اور دوسرے حیوانوں میں یہ بنیادی فرق موجود ہے کہ انسان جو بھی کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے وہ دوسرے کے بل میں بھی کھس سکتا ہے، وہ پانی کی گہرائی میں بھی جاسکتا ہے، وہ ہوا میں بھی اڑ سکتا ہے لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ وہ بنیادی طور پر کس سفر کا مسافر تھا اور اب کس سفر پر نکل پڑا ہے۔ ہم سب اسی صف میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں جس میں زیادہ کشش اور زیادہ چمک نظر آہی ہو، جس میں دولت کے انبار نظر آرہے ہوں۔ ہمیں کسی بھی صف میں کھڑے ہونے سے پہلے اپنی فطرت کو، اپنی پسند کو اوراپنی خواہش کو مد نظر رکھنا چاہیے تاکہ ہم اس صف میں قابل قد ر کام سر انجام دے پائیں اور اپنی اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں کو اذیت نہ بنائیں۔