1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. بااصول قائد کی بے اصول قوم

بااصول قائد کی بے اصول قوم

قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب "شہاب نامہ" کے حصہ "پاکستان کا مطلب کیا؟" میں قائداعظم محمد علی جناع سے ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ میں یہاں اس ملاقات کا احوال بیان کر رہا ہوں۔ اس کو پڑھنے کے بعد صرف اتنا سوچئے گا کہ کیا ہم ایسے بااصول قائد کو اپنا قائد کہنے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا یہ بے اصول قوم ایسے اصول پسند لیڈر پر کسی قسم کا حق جتانے یا ان کے دن کو منانے کا حق رکھتی ہے؟مجھے امید ہے ان سوالوں کا ایک ہی جواب آپ سب کو میرے طرح فوراً ہی مل جائے گا۔ قدر ت اللہ شہاب فرماتے ہیں۔

اڑیسہ کے چیف منسٹر شری ہری کرشن و مہتاب کانگرس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ ایک باردہلی سے وہ کانگرس کی کسی میٹنگ سے واپس آئے تومعمول کے مطابق انہوں نے کاغذات کی کالی صندوقچی میرے حوالے کر دی۔ ہمارا طریقہ کار یہ تھا کہ سیاسی کاغذات چھانٹ کر میں ان کے پرسنل پرائیویٹ سیکرٹری کے سپرد کر دیتا تھا، اورسرکاری کاغذات متعلقہ محکموں کے بھیج دیتا تھا۔ ان کا پرسنل پرائیویٹ سیکرٹری بڑا متعصب ہندو تھا۔ وہ اکثر اس بات پر سر پیٹتا تھا کہ مہتاب صاحب کے سیاسی کاغذات میرے ہاتھ سے کیوں گزرتے ہیں۔ چند بار اس نے چیف منسٹر کے پاس اس طریق کار کے خلاف بڑا سخت احتجاج بھی کیا لیکن مہتاب صاحب نے کبھی سنجیدگی سے اس کی باتوں پر کان نہ دھرا۔ جب کبھی میں سیاسی نوعیت کا پلندا پرائیویٹ سیکرٹری کے حوالے کرتا تھا تو وہ ماتھے پر ہاتھ مار مار کر بڑی فوں فاں کیا کرتا تھا۔ گجب ہو گیا، گجب ہو گیا۔ اپن نے تو سینت سینت کر ایک ایک کاگج جرور پڑھ لیا ہو گا۔ اپن نے تو ایک ایک کاگج کی نقل بھی رکھ لی ہو گی۔ بڑے گجب کی بات ہے۔ مہتاب جی کی بدھی تو بالکل ماری گئی ہے۔

اس بار میں نے چیف منسٹر کے کاغذات کا جائزہ لیا، تو ان میں ایک عجیب دستاویز ہاتھ آئی۔ یہ چھ ساتھ صفحات کا سائیکو سٹا ئلڈ انتہائی خفیہ حکم نامہ تھا۔ جو کانگرسی چیف منسٹروں کے نام اس ہدایت کے ساتھ جاری کیا گیا تھا کہ ہر چیف منسٹر اسے اپنی ذاتی تحویل میں رکھے۔ اس میں لکھا تھا کہ تقسیم ہند کا معاملہ تقریباً طے پا چکا ہے۔ اس لئے جن صوبوں میں کانگرس کی وزارتیں قائم ہیں۔ وہاں پر مسلمان افسروں کو کلیدی عہدوں سے تبدیل کر دیا جائے۔ خاص طور پر ہوم ڈیپارٹمنٹ، فنانس ڈیپارٹمنٹ، اور پریس ڈیپارٹمنٹ میں با اعتماد ہندو افسر وں کو تعینات کیا جائے۔ ڈی سی، آئی جی اور ایس پی عموماً ہندوہوں۔ تھانوں کے انچارج بھی زیادہ سے زیادہ ہندوہوں۔ محکمہ پویس اور ضلعی انتظامیہ میں مسلمانوں کو فیلڈ ورک سے ہٹا کر بے ضرر قسم کے دفتری کام کاج پر لگا دیا جائے۔ پولیس کی نفری میں مسلمان سپاہیوں کو بتدریج غیر مسلح کر کے پویس لائن اور تھانوں کے اندر معمولی فرائض پر مامور کیا جائے۔ جن صوبوں میں سرحدی مسلمانوں سے بھرتی شدہ ملڑی پولیس ہے اسے فوراً توڑ دیا جائے اور افسروں اور نفری کو اختتام ملازمت کی مناسب رقم یکمشت ادا کر کے رخصت کر دیا جائے۔ سرکاری خزانوں، اسلحہ خانوں اور محکمہ مال کے ریکارڈ آفسوں کی حفاظت کے لئے ہندو گارڈ تعینات کئے جائیں۔ اسلحہ رکھنے والے مسلمان لائسنس ہولڈرز کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ ہر چیف منسٹر کو نہایت سخت تاکید کی گئی تھی کہ وہ ان ہدایات پر ایسی خوش اسلوبی سے عملدرآمد کرے کہ اس سے آبادی کے کسی فرقے کے خلاف کسی قسم کے امتیازی سلوک کو پہلو مترشح نہ ہو۔ بغل میں چھری اورمنہ میں رام رام کا اس سے بہتر ظہور چشم تصور میں لانا محال ہے۔

یہ دستاویز پڑھ کر تھوری دیر میرے دل میں ایک عجیب سی کشمش ہوتی رہی۔ ڈپٹی ہوم سیکرٹری کا پیشہ وارانہ ضمیر میرے اندر چھپے ہوئے بے عمل، ناقص اور خوابیدہ سے مسلمان کے ضمیر کے ساتھ ٹکرا گیا۔ خدا کا شکر ہے تھوڑی سی لڑائی کے بعد جیت ٹوٹے پھوٹے مسلمان ہی کی ہوئی۔ چنانچہ میں نے یہ دستاویز اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لی، اور اس رات قائد اعظم سے ملاقات کرنے کی نیت سے دہلی روانہ ہو گیا۔

ان دنوں مسٹر کے ایچ خورشید قائداعظم کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے۔ اگر وہ دہلی میں موجود ہوتے تو غالباً مجھے قائداعظم سے ملنے میں کوئی دقت پیش نہ آتی۔ لیکن وہ موجود نہ تھے۔ ایک دو روز کی تگ و دو، منت سماجت اور حیلے بہانوں کے بعد آخر بڑی مشکل سے مجھے قائداعظم تک رسائی حاصل ہوئی۔ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ فارغ ہو کر ایک نظر مجھ پر ڈالی اور گرجدار آواز میں بولے۔ "کیا بات ہے"؟ "سر، میں آپ کے لئے ایک مفید دستاویز لے کر آیا ہوں۔ میرا نام قدرت اللہ شہاب ہے۔ میں اڑیسہ میں ڈپٹی سیکرٹری ہوں "۔ میں نے ایک ہی سانس میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہنے کی کوشش کی۔

"کیسی دستاویز"؟۔ میں نے آگے بڑھ کر کانگرس کا سرکلر ان کی خدمت میں پیش کیا۔ وہ بڑے سکون سے اسے پڑھتے رہے۔ میں کھڑا ان کے چہرے کا جائزہ لیتا رہا۔ ان کے جذبات میں ہلکا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔ ایک بار پڑھ چکے تو مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا۔ "ہاں یہ ہمارے لئے مفید ہو سکتی ہے"۔

یہ کہ کر وہ دوبارہ اس کے مطالعہ میں مٖصروف ہو گئے اس کے بعد مجھ سے دریافت کیا۔ "یہ تم نے کہاں سے حاصل کی ہے"؟

میں نے فرفر ساری بات کہ سنائی،

"ویل ویل تمہیں ایسا نہیں کرناچاہیے تھا۔ This is breach of Trust"

میں نے اپنا قومی فرض پورا کرنے کے موضوع پر تقریرکرنے کی کوشش کی تو قائداعظم نے مجھے کسی قدر سختی سے ٹوک دیا اور فرمایا۔

“Don't you see each copy is numbered، its disappearance would be easily tracked down to you. Are you prepared to face the consequences?”

میں نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔

“Yes sir, I am fully prepared”۔

"کیامیں اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہوں"؟ قائداعظم نے دستاویز کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

"جی ہاں سر! یہ میں آپ ہی کے لئے لایا ہوں"۔

"آل رائٹ تم جا سکتے ہو"۔ قائداعظم نے حکم دیا۔

میں دروازے سے باہر نکلنے لگا تو قائداعظم نے بلند آواز سے پکارکر پوچھا "تم نے اپنا نام کیا بتایا تھا"؟۔ "قدرت اللہ شہاب "۔ "بوائے دوبارہ ایسی حرکت مت کرنا "۔ قائدا عظم نے فرمایا، مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت ان کے چہرے پرکوئی مسکراہٹ تھی یا نہیں تھی۔ لیکن ان کے لہجے میں مجھے شفقت کا ہلکا سا گداز ضرور محسوس ہوا۔