1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. چھوٹے لالی پاپ اور بڑے لالی پاپ

چھوٹے لالی پاپ اور بڑے لالی پاپ

ویسے تو لالی پاپ کے بارے میں آپ سب لوگ جانتے ہوں گے اور یقیناً اپنے اپنے بچپن میں آپ سب نے لالی پاپ بہت شوق سے کھائے بھی ہوں گے لیکن آج کل کے بچے اس کو اتنے شوق سے نہیں کھاتے جتنا ہمارے بچپن میں اسکو شوق سے کھایا جاتا تھا، جس طرح فی زمانہ بہت سی چیزوں کی اہمیت ان کے متبادل کی وجہ سے کم ہو گئیں ہیں اسی طرح دوسری مختلف candies کی وجہ سے لالی پاپ کی اہمیت میں بھی قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تقریباً ہر شعبے کے لوگوں نے اپنا اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسکو علامتی طور پر استعمال کیا جاتاہے لیکن اس علامتی استعمال کی وجہ سے لالی پاپ آج بھی اپنا وجود قائم دائم رکھے ہوئے ہے۔ میں کچھ ایسے موقعوں کا ذکر کر رہا ہوں جہاں اس کو علامتی طور پر کثرت کے ساتھ استعمال کیا جاتاہے بس تبدیلی اتنی آئی ہے کہ اس کو کھانے کی بجائے لالی پاپ دینا کہا جانے لگا ہے۔ کچھ موقع ایسے ہوتے ہیں جہاں بڑا لالی پاپ دیا جاتا ہے اور کچھ موقعوں پر چھوٹے لالی پاپ سے ہی کام پوراکر لیا جاتا ہے۔

بڑے لالی پاپ دینے کی دوڑ میں پہلا خیال سیاست دانوں کا آتا ہے جو کہ عوام کو لالی پاپ دینے میں یدطولی رکھتے ہیں۔ سیاست دانوں کے پاس مختلف قسم کے، مختلف ذائقوں کے، مختلف رنگوں کے، مختلف سائز کے لالی پاپ ہوتے ہیں اور بہت وسیع مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو کہ وہ عوام کو وقتاً فوقتاً دیتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے منشور کا لالی پاپ دیا جاتا ہے جو کہ بہت لذید معلوم ہوتا ہے اس کے بعد خوابوں کا لالی پاپ دیا جاتا ہے جس پر امجد اسلام امجد کی نظم ذہن میں آجاتی ہے، کہتے ہیں۔ چن لو اپنے اپنے خواب۔ یہاں ڈھیر لگا ہے خوابوں کا۔ خوابوں اور خیا لوں کا۔ ہر خواب کی قیمت دو آنے۔ ہر خواب بکے گا دو آنے۔ دو آنے بھائی دو آنے۔ امجد اسلام امجد کی اس نظم کے اوپر دیے گئے مختصر حصے میں سے دو آنے نکال کر دو لالی پاپ لگا دیں تو یہ وہی خواب بنیں گے جو سیاست دان مسلط ہونے سے پہلے "معصوم "عوام کو دکھاتے ہیں اور جس کو "معصوم" عوام بہت خوشی سے دیکھ لیتے ہیں۔

سیاست دانوں کے بعد شوہروں کے لالی پاپ کی باری آتی ہیں جوکہ وہ اپنی بیگموں کو اس وقت دیتے ہیں جب وہ کوئی مشکوک حرکت کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ اس بارے میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کروں گا، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ شوہر اپنی بیویوں کو کتنے بڑے بڑے لولی پاپ دیتے رہتے ہیں۔

ہمارے کارپوریٹ سکیٹر بھی بڑے لالی پاپ دینے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، وہ اپنے ملازموں کو لالی پاپ دینے کے لئے اس حد تک سنجیدہ ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات وہ اس ضمن میں ڈھیر سارا معاوضہ دے کر مختلف فرموں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اور ان فرموں کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ ملازموں کو اس طرح لالی پاپ دیا جائے کہ وہ پروموشن اور بونس تو دور کی بات "پانی" بھی نہ مانگے۔ کچھ کمپنیاں تو ملازموں کو لالی پاپ دینے کے معاملے میں اتنی سنجیدہ ہوتیں ہیں کہ اس کے لئے وہ بیرون ملک سے انتہائی پڑھے لکھے لوگ درآمد کر لیتی ہیں جو کہ انتہائی منافع بخش کمپنی کو خسارے میں پیش کر کے اتنی خوبصورتی کے ساتھ ملازموں کو لالی پاپ دیتے ہیں کہ ملازم بلا اختیار آنسو صاف کرتے ہوئے بول پڑتا ہے۔ "بس کر پگلے رلائے گا کیا"۔

چھوٹے لالی پاپ ہم دن میں کئی مرتبہ لوگوں کو دیتے رہتے ہیں۔ اور ان لوگوں میں ہمارے دوست، ہمارے قریبی رشتہ دار، ہمارے کولیگ اور بہت سارے ملنے والے شامل ہوتے ہیں، ہم اگر وقت مقررہ وقت پر نہ پہنچ پائیں تو مختلف قسم کے لالی پاپ دے کر اپنی غلطی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وقت پر دیا گیا کام نہ کر کے اپنے باس کو مختلف قسم کے لالی پاپ دیتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو جھوٹ بولنے کی عادت، لالی پاپ دینے کی عادت اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کتنے سنگین گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنے ایک پورے دن کا تجریہ کریں اور دیکھیں کہ کتنے لوگوں کو آپ نے ضرورت کے تحت اور کتنے ہی لوگوں کو بلا ضرورت صرف عادت سے مجبور ہو کر لالی پاپ دیے ہیں۔ اگر تو ان لالی پاپوں کی تعداد کم ہے تو اس کو مکمل ختم کر دیں اور اگر بہت زیادہ ہے تو اس کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس کا ایک حل تجویز کرتاہوں جوکہ تیں مراحل میں ہے، پہلے مرحلے میں اپنی زندگی میں سے وہ لالی پاپ نکال دیں جو غیر ضروری طور پر صرف عادت سے مجبور ہو کر آپ دوسروں کو دیتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ان لالی پاپوں کی فہرست بنائیں جو کم ضروری ہیں اور ان کو اپنی زندگی سے نکالنے کی کوشش کریں، تیسرے اور آخری مرحلے میں لالی پاپوں کو مکمل طور پر اپنی زندگی میں سے نکال دیں اور اس بات کا عہد کریں کہ لالی پاپ کو صرف کھانے کے لیے استعمال کریں گے کسی کو دینے کے لئے ہرگز نہیں۔