1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. ہیرے ہمارے اندر موجود ہیں

ہیرے ہمارے اندر موجود ہیں

کسی کتاب میں انتہائی خوبصورت کہانی پڑھی تھی میں یہاں من و عن بیان کر رہا ہوں۔ افریقہ کے گاوں میں ایک کسان رہتا تھا، اس کے پاس جو کچھ تھا وہ اس پر بہت خوش تھا، اسی لئے وہ بہت خوشحال اور پرسکون زندگی گزار رہا تھا۔ ایک دن ایک "سیانا" آدمی اس کے پاس آیا اور اس کو ہیرے کی خوبصورتی اور ہیرے کی قدر و قیمت کے بارے میں بتانے لگا۔ "سیانے "آدمی نے بتایا، اگر تمہارے پاس انگوٹھے جتنا بڑا ہیرا ہو تو تم پورے شہر کو خرید سکتے ہو، اگر تمہارے پاس مٹھی جتنا بڑا ہیرا ہو تو تم پورا ملک خرید سکتے ہو۔ ہیرے کی کچھ مزید اہمیت بتانے کے بعد وہ چلا گیا۔ اس رات کسان سو نہیں سکا، کیونکہ اس کے پاس جو کچھ تھا وہ اس سے ناخوش ہو چکا تھا وہ سمجھتا تھا کہ اصل خوشی ان ہیروں کے حصول میں ہے جس کے بارے میں "سیانے " آدمی نے بتایا ہے۔ اگلے دن اس نے اپنی تمام زمین اور فام کو فروخت کیا، اپنے بیوی بچوں کو سسرال والوں کے پاس چھوڑا اور ہیروں کی تلاش میں نکل پڑا۔ اس نے سارے افریقہ میں ہیروں کو تلاش کیا لیکن وہ ناکام رہا۔ اس کے بعد اس نے تمام یورپ میں ہیروں کو تلاش کیا لیکن یہاں بھی اس کوہیرے نہیں ملے۔ جب وہ سپین پہنچا تو وہ جسمانی، نفسیاتی اور مالی طور پر مکمل ٹوٹ چکا تھا۔ وہ اتنا مایوس ہوا کہ اس نے بارسلونا دریا میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ کسان کے فام میں سے ایک ندی گزرتی تھی، جس آدمی نےکسان کا فام خریدا تھا وہ اپنے اونٹوں کو اس ندی میں سے پانی دے رہا تھا۔ صبح جب سورج کی کرنیں ندی کے پانی میں پڑے پتھر پر پڑیں تو وہ پتھر چمکنے لگے۔ اس کو بہت اچھا لگا اس نے ایک پتھر اٹھا کر اپنے کمرے میں رکھ دیا۔ شام کو وہی "سیانا" آدمی اس کے پاس آیا اور چمکتے پتھر کو کمرے میں دیکھ کر بولا۔ "کیا حفیظ (کسان )واپس آگیا"؟۔ اس آدمی نے بولا "نہیں" لیکن آپ نے کیوں پوچھا"؟۔ سیانے آدمی نے پتھر کو اٹھاتے ہوئے کہا۔ "یہ ہیرا ہے میں نے اسکو دیکھتے ہی پہچان لیا"۔ آدمی بولا۔ " نہیں یہ عام پتھر ہے جس کو میں نے اپنےفام سے گزرتی ندی میں سے اٹھا یا ہے، آئیے میں آپ کو دکھاتا ہوں ندی میں ایسے اور بھی بے شمار پتھر ہیں"۔ وہ گیا اور نمونہ کو طور پر کچھ اور پتھر سیانے آدمی کو دکھانے کے لئے اٹھا کر لے آیا۔ "سیانے "آدمی نے اس کو بتایا کہ یہ ہیرے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ جس کسان نے فام اور زمین تمہیں فروخت کی وہ انہی ہیروں کی تلاش میں گیا ہوا ہے جو حقیقت میں اس کے بہت پاس تھے۔

اس کہانی کو اپنی زندگی سے جوڑیں اور کچھ دیر کے لئے تصور کریں کہ کہ زندگی کا پہیہ الٹا چل پڑا ہے اور آپ پھر سے واپس اپنے بچپن میں لوٹ گئے ہیں۔ بچپن ہر کسی کو بہت عزیز ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان سکون جیسی نعمت سے سرشار ہوتا ہے، بچپن چاہے امیری میں گزرے یا غریبی میں اسکا لطف ایک سا ہی رہتا ہے، زندگی کے حقیقی رنگ دکھائی دیتے ہیں، نہ کسی کے نظریوں کی عینک پہنی ہوتی ہے نہ ہی کسی کی زندگی ہمارے وجود میں سانسیں لے رہی ہوتی ہے۔ ہم بچپن میں اپنی زندگی کے رنگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنے وجود میں اپنی سانسیں لے رہے ہوتے ہیں۔ سوچیں کہ آپ بچپن میں اس کسان کی طرح انتہائی خوش زندگی گزار رہے تھے پھر جب آپ نے لوگوں کی باتوں کو سننا اور سمجھنا شروع کیا تو ہمارے "سیانے " خاندان والوں نے، ہمارے "سیانے" اساتذہ نے، ہمارے "سیانے" معاشرے نے ہمیں بتایا کہ اگر ہمارے پاس انگوٹھے جتنا بڑا ہیرہ ہو تو ہم کسی پوش علاقے میں بڑی کوٹھی، بڑی گاڑی کے ساتھ "عزت " اور "سکون "والی زندگی گزار سکتے ہیں اور اگر ہمارے پاس مٹھی جتنا بڑا ہیرہ ہو تو کوٹھی، بنگلوں اور گاڑیوں کے ساتھ ساتھ شہرت اور طاقت کے ساتھ مزید زیادہ "عزت " اور "سکون" کی زندگی گزار سکیں گے۔ یہ باتیں ہم نے "سیانوں " کی زبانوں سے سنی ہوتیں ہیں اور چونکہ ہم "سیانے " نہیں ہوتے اس لئے اپنے کندھوں پر خوابوں کی گٹھری لاد کر انجانے سفر کی طرف چل پڑتے ہیں اور "سپین" پہنچے تک اس گٹھری کا وزن بہت زیادہ ہو چکا ہوتا ہے، ہم نفسیاتی، جسمانی طور پر مکمل غلام بن چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد بارسلونا کا دریا ہمارا منتظر ہوتا ہے یا تو ہم خود اس دریا میں کود پڑتے ہیں یا ہماری قسمت ہمیں اس دریا میں پھینک دیتی ہے اور اس کسان کی طرح ہمارا انجام بھی ہماری اپنی نظر میں عبرت ناک بن جاتا ہے۔

واصف علی واصف صاحب فرماتے ہیں۔ "خوش قسمت وہ ہے جو اپنی قسمت سے خوش ہو جاتا ہے"

میں ایک بات کا تذکرہ اپنی تحریروں میں بار بار کرتا ہوں وہ یہ کہ سکون، اطمینان اور خوشی ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے جو کہ اردگرد نہیں بلکہ ہر وقت ہمارے اندر موجود ہوتی ہے، لیکن ہماری بد قسمتی دیکھیں ہم اپنی خوشی اپنے اطمینان کو ان چیزوں میں تلاش کرتے ہیں جن کا ان سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہوتا دوسروں کی گاڑی، دوسروں کا بنگلہ، دوسروں کی پوزیشن، دوسروں کا کاروبار، دوسروں کے خوشی کے پیمانوں کو دیکھ کر، دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر ہم اپنے پیمانے بنا لیتے ہیں دوسروں کے بنائے سانچوں میں خودکو قید کر لیتے ہیں اور ساری زندگی کوہلو کے بیل کی طرح اس امید پر اذیت جھیلتے رہتے ہیں کہ ایک دن ہم بھی یہ سب کچھ حاصل کر کے خوش ہو جائیں گے۔ لیکن حقیقت میں ایسا کرنے سے ہم بے سکونی کی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں۔ ہیرے باہر نہیں ہیں، اس لئے ہیروں کو باہر تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر تلاش کریں کیونکہ ہیرے ہمارے اندر موجود۔