مینیجمنٹ کی ایک کلاس میں پروفیسر نے شاگردوں سے پوچھا کہ آپ لوگ اپنے مینیجریا باس میں کیا کیا خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں؟ یا اگر آپ کو اپنی پسند سے اپنے مینیجریا باس کا انتخاب کرنا ہو تو آپ اس میں کیا کیا خصوصیات دیکھیں گے؟ یہ تقریباً چالیس لوگوں کی کلاس تھی اور سب نے الگ الگ جواب دیے۔ میں یہاں سب کے جواب تو نہیں تحریر کرسکتا، لیکن اپنی بات واضح کرنے کے لئے میں چند شاگردوں کے جواب بیان کر رہاہوں۔ ایک نے جواب دیا، باس یا مینیجرکو وقت کا پاپند ہونا چاہیےچونکہ اگر باس یا مینیجر خود وقت کا پابند نہیں ہوگا تو اسکا فائدہ اس کے ملازمین اٹھائیں گے۔ دوسرے نے جواب دیا، باس یا مینیجر جلدی اور اچھے فیصلے کرنے والا ہونا چاہے تاکہ بر وقت فیصلوں سے ادارے کو مستحکم کیا جا سکے۔ تیسرے نے جواب دیا، باس یا مینیجر کا اخلاق اچھا ہونا چاہے تاکہ وہ اپنے ملازمین کی عزت نفس کا خیال رکھ سکے۔ چوتھے نے جواب دیا، باس یا مینیجر کا اپنے ملازمین نے ساتھ دوستانہ رویہ ہونا چاہیےاسکا براہ راست فائدہ ادارے کوہو گا۔ پانچویں نے جواب دیا، باس یا مینیجر کو ایماندار ہونا چاہیےوہ کسی بھی قسم کی کرپشن میں مبتلا نہ ہو تاکہ ادارہ ترقی کی نئی منازل طے کر سکے۔ چھٹے نے جواب دیا، باس یا منیجر کو مذہبی اقدار کا پابند ہونا چاہیے تاکہ اسکے ملازمین اس معاملے میں اسکی پیروی کر سکیں۔ ساتویں نے جواب دیا، باس یا مینیجر صفائی پسند ہونا چاہیے تاکہ ادارے میں ہر وقت صاف ستھراماحول ہو۔ اٹھویں نے جواب دیا، باس یا مینیجر اپنے ذاتی مقصد کے لئے کسی کی سفارش یا بلا وجہ کسی کی حمایت نہ کرنے والا ہو، تاکہ ادارے میں کام اور میرٹ کی بنیاد پر ترقی دی جائے۔ اسی طرح باقیوں نے بھی اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ پروفیسر نے سب خوبیوں کا خلاصہ نکال کر چند خوبیاں وائٹ بورڈ پر لکھیں اور شاگردوں سے پوچھا کہ وہ لوگ اپنا ہاتھ اٹھائیں جن میں یہ سب خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ جوابی رد عمل پروفیسر کی توقعات کے عین مطابق تھا، مطلب ایک بھی شاگرد نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اس نے بعد پروفیسر نے ایک جملے میں لیکچر کو سمیٹا اور کلاس ختم کر دی۔ پروفیسر نے کہا۔ جو خوبیاں آپ خود اپنے اندر نہیں پیدا کر سکتے اس کی اپنے باس یا مینیجر سے بھی توقع مت رکھیں۔
یہ ہمارا عمومی رویہ بن چکا ہے۔ ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم کسی سرکاری ادارے میں چلے جائیں تو ہم چاہتے ہیں کہ اصول اور قانون کو میز کے نیچے رکھتے ہوئے فوراً ہماراہر صحیح اور غلط کام ہو جائے، ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم تھانوں میں جا کر امید رکھتے ہیں کہ ہمارا مجرم رشتہ دارسزا کاٹے بغیر با عزت بری ہو جائے، ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم بریانی کی پلیٹ کھا کراور ایک ایک ہزار روپے میں ووٹ بیچ کر سیاستدانوں سے خلوص اور ایمانداری کی امید رکھتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم خود وقت کی پاپندی نہ کرتے ہوئے اپنے ملازمین اور دوستوں سے پابندی وقت کی امید رکھتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم بچوں کو خود جھوٹ سکھا کر ان کو سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم خود اپنے پیارے نبی ﷺ کے فرمان کو پس پشت ڈال کر غیروں سے پیارے نبی ﷺ کی عزت اور تکریم کی توقع رکھتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں ہم خود رشوت دے کر رشوت سے پاک معاشرے کے خواب دیکھتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں سفارش کر یا کروا کر سفارش کے خلاف لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں خود ملازمین کی عزت نفس مجروح کر کے معاشرے میں اچھے اخلاق کے خواب دیکھتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں برادری اور قبیلوں کی بنیاد پر عزتوں اور ذلتوں کے معیارات مقر ر کر کے برابری کی امید رکھتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں میرٹ کو اپنے پاوں تلے روند کر میرٹ کی باتیں کرتے ہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں خود کو علاقائی، لسانی، مذہبی طور پر تقسیم کر کے یکجہتی کی بات کرتےہیں، ہم بھی بہت بھولے ہیں اسلام کے بنیادی احکامات سے انحراف کر کے اسلامی جمہوریہ کے خواب دیکھتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم واقعی ہی بہت بھولے بادشاہ ہیں۔