1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. خوشی اور خواہش

خوشی اور خواہش

ایک کاغذ پر سیدھی لکیر کھینچیں، اس کے ایک کنارے پر خوشی اور دوسرے کنارے پر خواہش لکھیں۔ اب اس کاغذ کو طے کر کے اپنی جیب میں رکھ لیں۔ اس کے بعد جب بھی جیب میں ہاتھ ڈالیں، اس کاغذ کو نکال کر پڑھیں، نیچے دی گئی تحریر کو ذہن میں تازہ کریں اور کاغذ دوبارہ جیب میں رکھ دیں۔

میں نے آج تک کامیابی اور موٹیویشن پر جتنی کتابیں پڑھیں ہیں، ان میں سے اکثر کتابوں میں ایک بات ضرور لکھی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ بڑی بڑی خواہشات کا تعین کرو اور ان کے پیچھے بھاگنا شروع کر دو، وہ خواہشات مل جائیں گی تو خوشی بھی مل جائے گی۔ اس کے بعد اوربڑی خواہش کو پال لو، اس بڑی خواہش کی تکمیل کے ساتھ بھی خوشی ملے گی۔ پھر اس سے بھی بڑی خواہش کی طرف بھاگنا شروع کر دو اور خوشی کو تلاش کرنے کی جستجو کے لیےخواہشات کی غلام گردش میں ساری زندگی صرف کر دو۔ اس نظریے کے تحت خواہش اور خوشی ایک ہی راستے کی منزل کا نام ہیں۔ مختصر یہ کہ اگر آپ نے اپنی خواہش کے لئے محنت کی اور اس خواہش کو پورا کر لیا تو خوشی مل جائے گی۔ لیکن میرا نظریہ، میرا خیال اور میرا تجربہ اس سےبالکل مختلف ہے۔ میرے نظریے میں غلطی کی سو فیصد گنجائش موجود ہے اس لئے کوئی بھی اس سے مکمل اختلاف کر سکتاہے۔ میرے خیال میں ایک دوسرے کی ضد ہیں یہ ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ اگر آپ خوشی کے حصول کے سچے دل سے طلب گار ہیں تو خواہشات سے دور جانا ضروری ہو جاتاہے۔ اسی طرح اگرآپ کے قدم خواہشات کی طرف اٹھنا شروع ہو گئے تو ایک ایک قدم آپ کو خوشی سے دور لے جائے گا۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرکے چند لمحوں کی خوشی، چند لمحوں کا سکون یا لذت تو مل جاتی ہے، لیکن اس طرح درحقیقت ہم اپنے نفس کو طاقت ور کر رہے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے طاقت ور منہ زور نفس بے سکونی کی جڑ ہوتا ہے۔ آپ کبھی اس بات پر غور کیجئے گا کہ اگر آپ چھوٹی سی خواہش کو پورا کریں تو اپکو خوشی محسوس ہوگی اور اگلی بار کوئی اور خواہش مزید تیزی اور تکمیل کی امید کے ساتھ آئے گی اور آپ اسی لذت اسی خوشی کے لئے نئی خواہش کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کے لئے آپ کسی بھی حد کو پار کرنے میں عار محسوس نہیں کریں گے، چاہے یہ حد غلط اور صحیح کے درمیان کی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس ہم وقتی طور پر چھوٹی چھوٹی خواہشات پر بند باندھ کر وقتی طور پرتھورا بے سکون تو ہو جاتے ہیں، لیکن اس طرح ہم نفس کو کمزورکر تے چلے جاتے ہیں اور ہمارے نفس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے میرے خواہش پوری کرنی ہی نہیں اس لئے خواہش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ خواہشات پیدا ہونا ہی ختم ہو جاتیں ہیں۔ خواہشات ختم تو پریشانیاں ختم اور یہی راستہ بالاخر خوشی اور اطمینان کا راستہ ہوتاہے۔ کیونکہ ضرورتیں تو غریبوں کی بھی پوری ہو جایا کرتیں ہیں جبکہ خواہشات بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوا کرتیں۔

اب اس کے حل کی طرف آتے ہیں۔ کیونکہ ایسی باتوں کا بھاشن دینا بہت آسان ہوتا ہے جبکہ ایسی باتوں کو زندگی میں لاگو کرنا کچھ زیادہ آسان نہیں ہوتا۔ ہم ایسی باتوں کوپڑھ کر، ایسی باتوں کو کتابی باتیں کہ کر، ان کو اس وجہ سے مکمل فراموش کر دیتے ہیں کہ ایسی باتوں کو زندگی میں لاگو کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ایسا ممکن ہے، بس تھورےسے حوصلے اور ذرا سی مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایسی کتابی باتوں کے نتائج آہستہ آہستہ رونما ہونا شروع ہوتے ہیں۔ صرف اتنا کام کریں کہ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا مت کریں۔ یہاں ایک بات کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے کہ خواہشات اور ضرورتوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کے فرق کو ہمیشہ واضح اور صاف رکھیں۔ ضرورتوں کو پورا نہ کرنا بخل میں شمار ہوتا ہے۔ جب آپ چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری نہیں کریں گے توآپ کے اندر بڑی خواہشات کے جنم لینے کی امید بھی ختم ہو جائے گی۔ جب بھی چھوٹی چھوٹی خواہشات سر اٹھانے لگیں تو جیب سے کاغذ نکال کر دیکھیں اور خود سے سوال کریں کہ آپ کس منزل کے طلب گار ہیں ؟۔ اگر مستقل خوشی آپ کی منزل ہے تو خواہش کا گلہ دبا کر اس کو مار دیں اور اگر وقتی خوشی اور وقتی لذت چاہتے ہیں تو خواہشات کو پورا کرکے ان کی جڑوں کو اپنے وجود میں مضبوط کرتے رہیں۔