1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. زندگی کی حقیقتیں (تغیرات)

زندگی کی حقیقتیں (تغیرات)

زندگی میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ہمار ا بچپن جوانی میں اور جوانی پڑھاپے میں بدل جاتی ہے۔ آزادی اسیری میں بدل جاتی ہے، امیری غریبی اور غریبی امیری میں بدل جاتی ہے۔ صبح شام میں اور شام رات میں بدل جاتی ہے۔ شہرت کا چمکتا سورج اداسی اور تنہائی کے وسیع سمندر کی گود میں چھپ جاتا ہے۔ فتح شکست اور شکست فتح کا روپ لے لیتی ہے۔ نفرت عادت اور عادت محبت میں بدل جاتی ہے۔ باتیں خاموش ہو جاتی ہیں اور خاموشی شور کرنے لگتی ہے اور ان سب تغیرات کے بعد بالاخر ہمارے وجود میں سانسیں لیتی زندگی موت میں جذب ہو کر ہمارے جسم کو مٹی کر دیتی ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بادشاہ کا انتہائی زیرک وزیر تھا۔ بادشاہت اللہ کی دین ہواکرتی ہے وہ کسی کو بھی دے دیتا ہے۔ لیکن اسی بادشاہت کو قائم رکھنے کے لئے بادشاہوں کو مغل بادشاہ اکبر کے نو رتنوں اورچندر گپت موریا کے چانکیہ جیسے زیرک کرداروں کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ اس بادشاہ کا وزیر بھی ایسا ہی کردار تھا۔ عقل اور دانش کا سر چشمہ، علم اور کردار کا پیکر۔ بادشاہ جب بھی زندگی کے کسی مرحلے میں پریشان ہوتا تو یہی وزیر اپنی دانش اور عقلمندی سے بادشاہ کی مشکل آسان کر دیتا۔ ایک دن بادشاہ نے وزیر کو بلایا اور ایک انگوٹھی دے کر کہا اس پر ایسا فقرہ لکھواو جسکو میں پریشانی میں پڑھوں تو پریشانی دور ہو جائے، خوشی میں پڑھوں تو اداس ہو جاوں۔ وزیر نے انگوٹھی لی اور اگلے دن بادشاہ کے سامنے حاضر ہو کر انگوٹھی پیش کر دی اور واپس چلاگیا۔ انگوٹھی پر لکھا تھا۔ یہ وقت گزر جائے گا۔

یہ تغیرات کی دنیا ہے۔ یہاں سب کچھ بہت تیزی سے بدل رہا ہوتا ہے۔ کبھی یہ تبدیلی اتنی واضح ہوتی ہے کہ ہمیں اسکی دستک سنائی دیتی ہے، اس کی موجودگی کاحساس ہوتا رہتا ہے اور کبھی یہ تبدیلی اتنی آہستہ آہستہ رونما ہوتی ہے کہ ہمیں اسکی اہٹ بھی محسوس نہیں ہوتی۔ انسان اکثر تو اس تبدیلی کو خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے لیکن کبھی کبھی وہ نہیں چاہتا کہ کچھ بھی بدلے وہ نہیں چاہتا کہ حالات کا رخ کسی اور طرف جائے، وہ نہیں چاہتا کہ زندگی کی گاڑی موڑ لے کر کسی اور سڑک پر چل پڑے، کسی ایسی سڑک پر جہاں سب کچھ نیا ہو، سارے منظر انجانے ہوں اور سارے کردار لاتعلق ہوں۔ انسان اپنے کمفرٹ زون سے کبھی باہر نہیں آنا چاہتا اور اسی لئے وہ ان تغیرات کو، وقت کی تبدیلی کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس دنیا میں پسند ناپسند کا اختیار بہت محدور ہے، کتنا محدور ہے؟ یہ بہت پیچیدہ سوال ہے جس پر پھر کبھی تفصیلی بحث کروں گا۔ اس وقت ٖصرف اتنا سمجھ لیجئے یہ پسند نا پسند کچھ خاص معاملات کے علاوہ کبھی ہمارے اختیار میں نہیں ہوا کرتی۔ خاص طور پر ہمارے اردگرد کے حالات کبھی بھی ہماری پسند یا نا پسند کے تابع نہیں ہوا کرتے اور ہمیں مجبوراً ان حالات کو قبول کرنا پڑتا ہے، ان حالات کو قبول کر کے ان کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے، تغیرات کی حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے لوگ بدل جاتے ہیں، کردار بدل جاتے ہیں، ایسے لوگ ہم سے لاتعلق ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہم تعلق جیسے لفظ سے آشنا ہوا کرتے ہیں، انہی لوگوں کی محبت نفرت کی چادر اوڑھ کر ہمارے روبرو آجاتی ہے۔ وہ لوگ بھی ہم سے دور چلے جاتے ہیں جن کی موجودگی ہمارے لئے ہوا کی طرح ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ تغیرات کی ہوا اگر اسی سمت کی ہو جس سمت کے ہم مسافر ہیں تو یہ ہوا باد صبا کی طرح بڑی بھلی محسوس ہوتی ہے، وجود میں ٹھندک کا احساس ہوتا ہےآنکھیں بند کر کے اس ہوا کو ہم وقتافوقتاً اپنے وجود میں اتارتے رہتے ہیں کیونکہ اسی ہوا کی وجہ سے منزل تک پہنچے میں مدد ملتی ہے اور اگر تغیرات کی یہ ہوا جو کبھی باد صبا کی طرح ہوتی ہے تیز اندھی کا روپ لے کر ہمارے مخالف چلنے لگے تو اس صورت حال میں یہ طبیعت پر بہت ناگوار گزرتی ہے۔ زندگی کی جو بھی حقیقتیں ہیں، ہم چاہے ان کو مانے یا نہ مانیں ان کی حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں بارحال ان کا ساتھ ہماری زندگی میں ضرور رہتاہے۔ ہمیں زندگی کی ان تلخ یا خوشکوار حقیقتوں کو مان کر ان کے ساتھ دوستی کر لینی چاہیے تاکہ ان کی آمد ہمارے لئے خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہو نہ کہ طبیعت کا بوجھ بن جائے۔