1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. زندگی کی حقیقتیں ( عروج سے زوال کی طرف سفر)

زندگی کی حقیقتیں ( عروج سے زوال کی طرف سفر)

حسن جہانگیر پاکستان کے نامور گلوکار ہیں، وہ اس دور میں شہرت کی لذت سے آشنا ہوئے جب پاکستان میںصرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ پی ٹی وی کے پروگرام دیکھا کرتے تھے۔ گھروں، سکولوں، دفتروں اور بسوں میں پی ٹی وی کے پروگراموں کے حوالے سے بات ہوا کرتی تھی۔ شام کے وقت شہر کی سڑکیں سنسان ہو جایا کرتیں تھیں، ہر کوئی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھا کرتا تھا۔ وہ ڈرامے جن کی چھاپ آج تک ہمارے ذہنوں میں موجود ہے۔ ان باتوں سے یہ ہرگز اندازہ مت لگائیے گا کہ میں بہت پرانے دور کا عمر رسیدہ آدمی ہوں۔ ہرگز نہیں ابھی تو میں جوان لڑکا ہوں۔ ویسے بھی دل جوان ہوناچاہیے۔ اس دور میں مشہور ہونا بہت مشکل تھا لیکن جو مشہور ہوتا تھا اسکو تمام لوگ جانتے تھے۔ کیونکہ سب نے ایک ہی چینل دیکھنا ہوتا تھا۔ حسن جہانگیر کا سورج بھی اس دورمیں بھر پور روشن تھا۔ حسن جہانگیر کا گانا "ہوا ہوا" زبان زد عام ہوا کرتا تھا۔ اس گانے نے شہرت کی نئی بلندیوں کو چھواتھا۔ لیکن وقت ایک سا نہیں رہتا، یہ بہت جلدی گزر جاتاہے، بہت جلدی بدل جاتاہے۔ تغیرات نے ہر حال میں حملہ آور ہونا ہوتاہے۔ حسن جہانگیر کو بھی لوگوں نے بھلا دیا اور اب وہ گئے دنوں کا ایک سورج بن چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک انٹر ویوں میں انہوں نے کہا تھا: "عروج سے زوال کا سفر بہت تکلیف دہ ہوتاہے"۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی غلط کام میں پکڑے گئے یا بدنام ہو کر پاتال میں زوال کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلکہ اسکا یہ مطلب ہے کہ انکا دور گزر چکا ہے، انکا وقت گزر چکا ہے، انکی شہرت کا سورج جو آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا وہ غروب ہو چکا ہے۔ وقت کے گھن چکر میں وہ کہیں گم ہو گئے ہیں۔

زندگی کی بہت ساری حقیقتوں میں سے یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہر عروج کو بارحال اپنے بھرپور سفر کے بعدزوال کی طرف جھکنا پڑتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں عروج اور زوال ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، انکا آپس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بہت ساری اور چیزوں کی طرح عروج میں بھی بڑا لذید نشہ ہوتا ہے۔ جس کی انسان کو لت لگ جاتی ہے اور اسی لذت میں انسان زوال جیسے لفظوں سے نا آشنا ہو جاتا ہے یا جان بوجھ کر زوال کی طرف جانے والے راستے کو دیکھنے سے انکار کر دیتاہے۔ قدرت کے کچھ قوانین ہیں جن میں دیر تو ممکن ہے لیکن ان کا نفاذ ضرور ہوتاہے۔ ہم میں سے ہر انسان کی زندگی میں ایساموقع ضرور آتا ہے جب ہمارا سورج اتنا روشن ہوتا ہے کہ اس کی طرف کسی کی دیکھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ ہمارا سورج بھرپور عروج پر ہوتاہے کبھی یہ عروج اچھی پوزیشن ملنے کی صورت میں ہوتاہے، کبھی یہ عروج کاروبار کی کامیابی کے ساتھ ملتاہے، کبھی یہ عروج شہرت کے ساتھ ملتاہے، کبھی یہ عروج دولت کی ریل پیل کے ساتھ آتاہے، کبھی یہ عروج بہت زیادہ محبت ملنے سے آجاتا ہے، کبھی یہ عروج اچھی ذہانت کے ساتھ چلا آتا ہے، کبھی یہ عروج قدرت کی دی ہوئی خوبصورتی میں ہوتاہے، کبھی یہ عروج قسمت کا دامن پکر کر ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے اور کبھی یہ عروج طاقت کے ساتھ ہمارے وجود میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ عروج اور زوال کی آپس میں بہت گہری محبت ہے، اس لئے عروج کوکبھی نہ کبھی زوال کی یاد ضرورستانے لگتی ہے اور وہ ہمارے وجود کو پاتال میں دھکیل کر، ہماری زندگیوں میں اندھیرے کر کے اپنا آپ زوال کے سپرد کر دیتاہے۔ اس وقت تغیرات کی ماہیت کابڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔

اگر عروج اور زوال ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، اگر عروج اور زوال کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اگر عروج اور زوال میں اتنی گہری محبت ہے تو ہم ان کو جدا کیوں کرتے ہیں؟ ہم کیوں عروج کے ساتھ زوال کو بھول جاتے ہیں؟ اسی کیوں میں ہمارے وجود کا کھوکھلا پن، ہماری اداسیاں پوشیدہ ہیں۔ زندگی میں جب بھی عروج ملے یا جب بھی آپ کا سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہو یا آپ جتنا بھی آسمانوں پر چلے جائیں ہمیشہ زوال کو ضرور یاد رکھیں، آپ جتنی بھی بلندی پر چلے جائیں اپنی نظریں ہمیشہ زمین پر ہی رکھیں اور یہ ضرور سوچیں کہ جلدی یا دیر سے ہمیں اسی زوال کی طرف جانا ہے۔