1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. وقت کی رفتار

وقت کی رفتار

ایک اور سال اپنا سامان باندھ کر ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھڑنے کو تیار بیٹھا ہے۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں یہ سال زیادہ تیزی اور افراتفری میں گزر گیا۔ زندگی کی رفتار میں بے پناہ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ اور اس تیزی کی شکایت زبان زد عام ہو چکی ہے۔ میں اپنی بات کو اگے بڑھانے سے پہلے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی ایک حدیث جو کہ ترمذی میں موجود ہے بیان کر رہا ہوں اور ساتھ ہی اپنی سمجھ کے مطابق اسی حدیث کی چھوٹی سی کیلکولیشن بیان کر رہا ہوں۔ جس کے بعد وقت کی تیزی کو حوالے سے ہماری ذہنوں میں پڑی دھند کافی حد تک کم ہو جائے گی۔ اللہ تعالی کمی کوتاہی کو معاف فرمائے۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ زمانہ قریب آجائے گا تو سال مہینے کی طرح، مہینہ جمعہ (سات دن) کی طرح اور جمعہ (سات دن) دن کی طرح، دن گھنٹے کی طرح اور گھنٹہ آگ کے شعلے کی طرح ہوگا۔

یہ حدیث پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔

پہلا حصہ: سال مہینے کے برابر ہو گا۔ آج کے انسان کی اوسطً عمر ساٹھ سال ہے۔ ساٹھ سال ساٹھ مہینوں کے برابر ہوں گے اور ساٹھ مہینے پانچ سال کے برابر ہوں گے۔ حدیث کے پہلے حصے کے مطابق ساٹھ سال کی زندگی گزارنے والا انسان حقیقتاً صرف پانچ سال کی زندگی گزارے گا۔

دوسرا حصہ: مہینہ سات دن کے برابر ہو گا: اس حصے کے مطابق ساٹھ سال کی زندگی گزارنے والا انسان حقیقت میں چودہ سال کی زندگی گزارے گا۔ اگر آپ مہینوں کو ہفتہ کے برابر کر کے کیلکولیٹ کریں گے تو آپ جان جائیں گے کہ یہ چودہ سال میں نے کس طرح نکالے ہیں۔

تیسرا حصہ: سات دن (ہفتہ) ایک دن کے برابر ہوگا: ایک ہفتہ ایک دن کے برابر ہوگا اس طرح زندگی کے ساٹھ سال حقیقت میں صرف اٹھ سال کے برابر ہوں گے۔

چوتھا حصہ: ایک دن ایک گھنٹے کے برابر ہوگا: اس حصے کے مطابق ایک دن ایسے گزر جائے گا جیسے ایک گھنٹہ گزرتا ہے اور ساٹھ سال صرف ڈھائی سال کے برابر ہو جاہیں گے۔

پانچواں حصہ: گھنٹہ آگ کے شعلے (ایک سیکنڈ) کے برابر ہوگا: اس حصے پر تو کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ اس کے مطابق ساٹھ سال کی زندگی گزارنے والے کی حقیقتاً عمر صرف چھ دن ہوگی۔

بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ہر لفظ حق اور سچ ہے اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ اگر ہم آج اپنی زندگی کا کچھ سال پہلے کی زندگی سے موازنہ کریں تو بلا اختیار ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ زندگی کی رفتار میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔ بچپن میں گرمیوں کی ڈھائی ماہ کی چھٹیاں پہاڑ معلوم ہوا کرتیں تھیں۔ چھٹیاں گزار کر جب سکول جایا کرتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سالوں بعد سکول واپس ائے ہیں۔ پچپن کے ڈھائی ماہ کو آج کے ڈھائی ماہ سے ملائیے ایسا لگے گا جیسے چند دن بعد ہی ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں۔ پہلے ایک سال ختم ہونے میں بہت وقت لگتا تھا اور اب سال ایسے گزر جاتے ہٰیں جیسے کوئی مسافر سرائے میں ٹھہرے اورسامان کھولے بنا ہی فوراً چلا جائے۔

ہماری زندگی میں بہت ساری حقیقتیں طشت از بام ہوتیں ہیں، بہت ساری سچائیاں روز روشن کی طرح عیاں ہوتیں ہیں لیکن ہم ان کو جانتے ہوئے، ان کو پہچانتے ہوئے انجان بنے رہتے ہیں۔ جس طرح بابا جی اشفاق احمد فرماتے ہیں ہم اللہ تعالی کو ایک مانتے ہیں لیکن اللہ تعالی کی ایک بھی نہیں مانتے۔ اسی طرح بہت ساری باتوں کا علم رکھتے ہوئے ہم لاعلم ہو جاتے ہیں۔ بہت ساری باتوں کو مانتے ہیں لیکن حقیقت میں نہیں مانتے۔ ہماری اوسطً ساٹھ سالہ زندگی میں سے شروع کے پندرہ سال بچپن اور آخری کے دس سال بڑھاپے کے نکال دیں تو ہمارے ہاتھ کیا رہ جاتاہے۔ اس کے بعد اوپر بیان کی گئی حدیث کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ کیا یہ ساٹھ سالہ زندگی بھی ساٹھ سالہ زندگی رہ گئی ہے؟ ہم حقیقتاً کتنی زندگی گزار رہے ہیں؟ اور اتنی معمولی زندگی اور اس کے اختتام کے بارے میں معلوم ہوتے ہوئے ہم اس سے اس طرح محبت کرتے ہیں جیسے اس نے ہم سے کبھی جدا نہیں ہونا، ہمیں زندگی کی حقیقت اور اس کی بے ثباتی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم لوگوں کودھوکہ بھی دیتے رہتے ہیں، لوگوں کا دل بھی دکھاتے رہتے ہیں، اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکی نافرمانی بھی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں۔

“جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے توایسامعلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ (دنیا میں) رہے ہیں"۔ (79-46)

آج اور ابھی اللہ سے سچےدل سے معافی مانگیں، اللہ سے ہدایت کی دعا کے ساتھ سیدھے راستے پر نکل پڑیں اور

اوپر بیان کی گئی آیت اور حدیث کو ہر روز پڑھا کریں اور سوچیں کتنی تھوری زندگی کے لئے ہم کتنی بڑی اور نہ ختم ہونے والی زندگی کو بھول جاتے ہیں۔ جب بھی کچھ غلط کرنے لگیں یا فرائض کی ادائیگی میں سستی کا خیال آئے تو اس آیت اور اس حدیث کو ذہن میں رکھ کر بس یہ خیال کریں کہ آج کی زندگی بہت ہی تھوری ہے اس لئے جلدی جاگنا بہت ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہماری آنکھ کھلے گی تب تک ہم ساحل کے کنارےپرپہنچ چکے ہوں اور کوئی بھی لہر ہمیں اپنے دامن میں لے کر اس دنیا سے بہت دور لے جائے گی۔