1. ہوم
  2. کالمز
  3. علی محمود
  4. یادوں کے جھروکے

یادوں کے جھروکے

کچھ مناظر، کچھ لوگ، کچھ کردار، موسیقی کی کچھ دھنیں، کچھ شامیں، کچھ موسم، بارش کی کچھ بوندیں، کچھ وعدے، کچھ آوازیں کبھی کبھی کتنی جانی پہچانی بن جاتی ہیں، ان کے ساتھ خاص طرح کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات کچھ مناظر حافظے کی ساری کھڑکیاں کھول دیتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگ، کچھ چہرے ان لوگوں اور ان چہروں کی یاد دلا دیتے ہیں جووقت کی گرد میں دھندلاچکے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ کردار ان کرداروں میں جان ڈال دیتے ہیں جو بے جان ہو چکے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات موسیقی کی کچھ دھنیں درد اور تکلیف کے سارے سروں کو چھیڑ دیتی ہیں۔ بعض اوقات کچھ آوازیں چونکا دیتی ہیں۔ بعض اوقات کچھ شامیں گزری ہوئی چند خوبصورت شاموں کا ہاتھ تھامے انہیں واپس لے آتی ہیں۔ بعض اوقات کچھ موسم کسی کے ساتھ وابستگی کے خوبصورت احساس دے جاتے ہیں۔ بعض اوقات بارش کی چند بوندیں وجود کے اندر تک اترکر اندر باہر ہر طرف سے بھیگو دیتی ہیں۔ بعض اوقات کسی کے وعدے کسی کے عہد وپیماں کو تازہ کر جاتے ہیں۔ یادوں کے جھروکوں سے یادیں ایسے اندر آتی ہیں جیسے اندھی طوفان میں شاپر اڑ کرآتے ہیں۔ زندگی کی بیلنس شیٹ میں سب سے اہم سرمایہ یادیں ہوا کرتی ہیں جو کبھی بھی تنہا اور اکیلا نہیں ہونے دیتیں۔ لیکن کبھی کبھی ہم یادوں کی کھڑکی کو کنڈی لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان پر خوبصورت پردے گرا کر ان کو دیوارکے پیچھے قید کئے رکھتے ہیں۔ یادوں کا تذکرہ کرتے ہی جوش ملیح آبادی کی کتاب یادوں کی بارات کے سر ورق پر درج شعر فوراً ذہن میں آجاتا ہے۔ فرماتے ہیں

اطراف و جہات کو مرتب کر لے

رودار حیات کو مرتب کر لے

اس سے پہلے کہ بھول جائے سب کچھ

یادوں کی بارات کو مرتب کر لے

یادو ں کی الگ اور بہت خوبصورت دنیا ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے ادرگرد ایسے لوگ ضرور دیکھے ہوں گے جن کی الگ ہی دنیا ہوتی ہے وہ ہر وقت اپنی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ ان کی خوشیاں ان کے دکھ ہماری اس دنیا سے نہیں بلکہ اپنی دوسری دنیا سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کا کمفرٹ زون اسی دنیا کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہ دنیا حقیقت میں یادوں اور خوابوں کا مرکب ہوا کرتی ہے جن کے ساتھ بعض اوقات تعلق کی شدت اپنے انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ ہر وقت یادوں کی دنیا میں رہنا بھی زندگی کو کافی بوجھل کر دیتا ہے، زندگی کا چکر مشکل ہو جاتاہے۔ زندگی کسی کے لئے رکتی نہیں ہے۔ زندگی اپنی رفتار کے ساتھ اپنے راستے پر مسلسل چلتی رہتی ہے۔ ہم یادوں کا بوجھ اٹھائے خراماں خراماں چلتے رہتے ہیں اوراس طرح دنیا بہت اگے نکل جاتی ہے۔ یہ دو انتہائیں ہیں ایک طرف تو یادوں کی کھڑکی کو ہم بالکل بند کر کے سب راستوں کے بند کر دیتے ہیں ان پر پردے گرا دیتے ہیں اور دوسری طرف ہم یادوں کی دنیا سے باہر ہی نہیں آپاتے۔ یہ دونوں انتہائیں ہمیں ہمارے راستے سے ہٹا دیتیں ہیں۔ اچھی یادوں کی سرمایہ کی طرح حفاظت کریں ان کو سنبھال کر رکھیں لیکن ان میں اپنی زندگی ارپن مت کریں۔